فکر فردا ۔۔۔۔۔۔۔لواری ٹنل اور مولانا عبدالاکبر چترالی

 لواری ٹنل چترالیوں کے لئے زندگی اور موت کی حیثیت رکھتی تھی ہر سال لواری کے خونخوار پہاڑی کو عبور کرتے ہوئے دسیوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھوتے آئے ہیں ۔ اس لئے مقامی زبان میں اسے روئے لیے یعنی لوگوں کا خون بھی کہا جاتا ہے۔ لواری ٹنل گو کہ اب تقریبا مکمل ہوچکے ہیں لیکن ماضی میں جن لوگوں نے اس ٹنل کے لئے جدوجہد کی ان کو خراج تحسین پیش نہ کرنا بہت بڑی زیادتی ہوگی۔خاص کر سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقارعلی بھٹو صاحب اگر اس ٹنل پر کام شروع نہ کرتے تو شاید یہ کسی کے ذہن میں آتے۔ بھٹو حکومت کے خاتمہ کے بعد یہ اس ٹنل پر کام بند ہوگیا یوں اگلے تیس برسوں تک اہالیان چترال کو انتظار کرنا پڑا۔ سن 2002ء کےعام انتخابات میں خیبرپختونخواہ سے متحدہ مجلس عمل کو کامیابی ملی اور چترال سے قومی اسمبلی کی واحد سیٹ پر ایم ایم اے کے امیدوار مولانا عبدالاکبر کامیاب ہوگئے۔اگر سیاستی وابستگی اورپسند وناپسند سے ہٹ کر دیکھاجائے تو مولانا عبدالاکبر چترالی کی کامیابی کے بعد چترال کی تاریخ ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔ موصوف پشاورمیں عرصہ دراز سے مقیم تھے اور پشاور کے صحافتی برادری سے لے کر سول سوسائیٹی تک ان کی واقفیت تھی، پھر چترالی کمیونٹی تو ان کی اپنی تھی۔ سو مولانا صاحب نے ان لینکیجز کو استعمال کرتے ہوئے عوام کو منظم کیا اور تقریباً روزانہ کی بنیاد پر پشاورمیں لواری ٹنل کی تعمیرکے لئے احتجاجی مظاہرے، پریس کانفرنسز کا انعقاد شروع کیا۔ ساتھ ہی ساتھ اسمبلی میں جب بھی انہیں موقع ملا تسلسل کے ساتھ لواری ٹنل کا مطالبہ کرتے رہے تبھی تو عبدالاکبر چترالی کے لئے مولانا ٹنل کی اصطلاح استعمال کی جانے لگی۔ مولانا صاحب نے نہ صرف اسمبلی میں باآواز بلند لواری ٹنل کی جلدازجلد تعمیر کا مطالبہ کرتے رہے بلکہ چترالیوں کو اسلام آباد میں جمع کرکے شاہراہ دستورپراحتجاجی مظاہرہ کیا۔یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ مولانا عبدالاکبر چترالی صاحب نے لواری ٹنل کے مسئلے کوحقیقی معنوں میں حکام بالا تک پہنچایا انہیں کی آواز سنتے ہوئے بالآخر سابق صدر جنرل پرویز مشرف صاحب نے جولائی 2005ء کو اپنے دورہ شندور کے موقع پر لواری ٹنل پر باقاعدہ کام کا افتتاح کیا۔ اس عظیم کام کے لئے جہاں سابق صدر جنرل پرویز مشرف خراج تحسین کے مستحق ہے وہیں اسی دور میں قومی اسمبلی اور سڑکوں پر چترال کی نمائندگی کرنے والے مولانا عبدالاکبر چترالی کے کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔