چترالی ثقافت کی تباہی چترالی خواتین کے ہاتھوں

ادارے کا مراسلہ نگار سے متفق ہونا ضروری نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایڈیٹر۔۔۔۔۔

پچھلے دنوں ایک مضمون  جو چترالی خواتین  کی سیاسی سرگرمیا ں اور چترالی ثقافت کی تباہی کے حوالے سے لکھی گئی تھی۔ یہ مضمون  سوشل میڈیا    پر اپلوڈ ہوتے ہی چترال سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دار  اور غیر سنجیدہ صارفین نے آسمان سر پہ اٹھائے اور صاحب مضمون کو دھمکیاں دینے لگے کہ مضمون ڈیلیٹ کرو اور معافی مانگو، تمہارا اوقات، محض ایسے ایسے الفاظ لکھے گئے جنہیں میں اپنے مضمون  میں دہرانے سے قاصر ہوں۔ کیونکہ میرا پرورش بھی چترال کی نام نہاد شریف، پرامن، اور مہذب معاشرے میں ہوئی ہے اور خود ساختہ شرافت سے ہم بھی کسی حد تک متاثر ہیں۔ خیر جو بھی ہے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ہماری ثقافت کو تباہ کیا جارہا ہے۔ یہ تحریک انصاف ہی ہے جو  فحاشی پھیلارہی ہے۔ ہمیں محتاط رہنا چائیے یہ ہمارا ایمان، غیرت اور عزت کا سوال ہے کیونکہ ہماری خواتین کی تصاویریں فیس بک میں ڈالی جارہی ہیں۔ جو ہمیں اور ہماری شائستہ، پر خلوص، امن محبت سے بھر پور ثقافت کو کبھی قبول نہیں۔ ہمیں یہ ہر حالت میں روکنا ہوگا۔

مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے فیس بکی دانشوار یا سوشل میڈیا کے ہمارے غیر ذمہ دار صارفیں، جو عورت کے لئے حدود کا تعین کرتے ہیں اور عورت پر پابندی کے حق میں رہتے ہیں  ۔ اس مقصد کے لئے وہ مذہب کو اپنا سب سے بڑا ہتھیار بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ان کی رائے دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ عورت کی تصاویر فیس بک پر ڈالنے سے عزت و غیرت کے ساتھ ساتھ ایمان کا بھی بیڑا غرق ہونے والا ہے۔ درحقیقت یہ لوگ لاعلمی کا شکار ہیں۔ انہیں چائیے کہ وہ رائے قائم کرنے سے پہلے مطالعہ کریں۔ ہم مختصرا  عورت کی تاریخی ،  معاشرتی اور مذہبی حیثیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو مسلے کو کسی حد تک سلجھانے میں مدد دے گی۔

مشرقی مسلم معاشرے ہمیشہ عورت پر پابندی کے حق میں رہتے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ عورت کی آزادی ایک قسم کی بے پردگی ، بے حیائی اور گناہ  ہے۔ ان معاشروں میں عورت پر پابندی اور مظالم کو مذہبی حمایت حاصل رہتی ہے۔ تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاشرے اسلام سے پہلے بھی عورت پر پابندی کے حق میں تھے۔ ظہور اسلام سے پہلے عرب میں بیٹیوں کو زندہ دفنانا عورت سے نفرت کی ایک زندہ مثال ہے۔ برصغیر کے راجپوت اور دوسرے خاندان  عورت کو پردے میں رکھنے اور عورت پر ظلم کرنے کو مردانگی کی علامت تصور کرتے تھے۔ اُن معاشروں میں عورت ایک ناپاک مخلوق تصور کی جاتی تھی جو کسی حد تک آج بھی برقرار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی بہت سے راجپوت جو مذہب کے لحاظ سے مسلم نہیں ہونگے مگر عورت پر پابندی  میں سختی سے عمل کرتے ہونگے۔ تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت پر پابندی اسلام سے پہلے یعنی دور جہالت کا دیا ہوا تحفہ ہے اسلام سے اسکا کوئی تعلق نہیں۔ آج پاکستان کا ہر مرد عورت پر پابندی اور عورت کو پردے میں رکھنے ، نیز یہ کہ عورت پر ظلم کرنے کو ہی مردانگی  اور مسلمانی کی علامت تصور کرتا ہے۔

اس کے بعد انسانی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر اور ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ عورت شروع کے معاشرے میں کس درجے پر فائز تھی۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انسان جب خانہ بدوشی کی زندگی ترک کرکے باقائدہ طور پر معاشرہ آباد کیا تو اس وقت معاشرے میں عورت کی حکمرانی تھی کیونکہ بیج بونے کا فن عورت نے دریافت کی تھی اور  خانہ بدوشی کے خاتمے اور معاشرے کے قیام میں یہی فن مدد گار رہی ، جسے عورت نے دریافت کی تھی ۔ رشتے ماں کے نام سے جانے جاتے تھے۔ تمام معاشرے میں مدرسری خاندان آباد تھے۔ شخصی املاک کا کوئی تصور نہیں تھا اسی لئِے معاشرے میں جرائم نام کی کوئی چیز نہیں تھے۔(اسکا    تفصیلی ذکر اپنے پچھلے مضمون “چور چوکیدار ” میں کرچکاہوں) اس کے بعد جب عورت سے حکمرانی چھین لی گئی اور مرد کے ہاتھ آئی تو عورت کو غلام بنا کر رکھ دیا گیا۔ یہ انسانی فظرت ہے کہ جب کسی سے اقتدار چھینی جاتی ہے تو اسی کو ہی اپنے لئے سب سے زیادہ خطرہ تصور کی جاتی ہے ، اس وقت بھی ایسا ہی ہوا، کیونکہ مرد نے عورت سے معاشرتی اقتدار چھین لیا تھا اور یہ لازم تھا کہ وہ اپنے لئے عورت ہی کو خطرہ تصور کرتا تھا۔ اسکے بعد مرد اپنے ہر پلاننگ میں عورت کو نظر انداز کرتے گیا، عورت کو غلام بنا کر ایک دوسرے کے ہاتھ خرید و فروخت کا سلسلہ شروع کیا گیا اور یہ ہوتے ہوتے جہالت اس درجے پر پہنچا کہ عورت کو مکمل طور پر مکرہ تصور کیا جانے لگا اور معاشرے میں بیٹیوں کو زندہ دفنانے کا رواج شروع ہوا۔ انسانی تاریخ کے اس مشکل ترین دور میں پیغمبر اسلام اس دنیا میں تشریف لائے اور بارگاہ الہی سے محمدؐ کو اس مقام پر بھیجا گیا جہان یہ انسانیت سوز حرکت ہورہے تھے۔ پیغمبراسلام نے عربوں کو اس مذموم حرکت  سے روکا اور بیٹیوں کو اللہ تعالی کی رحمت قرار دیا ۔ جسے کوئی مسلمان انکار نہیں کرسکتا۔ مگر افسوس اس بات کی ہوتی ہے کہ پاکستان میں عورت پر آئے روز پابندی عائد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور عورت پر مظالم کو جائز قرار دینے کے لئے مذہب کو بطور ہتھیار استعمالکیا جاتا ہے جو کہ انتہائی افسوسناک ہے۔ہم عورت پر پابندی عائد کرنے والے ان غلام ذہنیت کے لوگوں کو ، جو مذہب کو اولیت قراردیتے ہیں ، عورت پر ظلم کرنے کو مذہبی فرض سمجھتے ہیں،عورت کی آزادی کو بے حیائی اور گناہ سمجھتے ہیں۔اور انکا دعوی ہے کہ یہ گناہ مسلمان کو جنت سے محروم کردےگی۔ تو یہ واضح کرتا چلوں  کہ جس جنت کے لئے یہ پاگل بنے پھیر رہے ہیں وہی جنت اسی عورت کے قدموں تلے موجود ہے اور یہ میرا نہیں بلکہ نبی آخرزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا فرمان ہے جسے کوئی مسلمان انکار نہیں کرسکتا۔اور جان ہتھیلی پہ رکھ کر یہ سوال کرتا چلوں کہ مرد عورت سے پیدا ہوکر پھر اسی عورت سے افضل کیسے بنتا ہے، سمجھ سے بالاتر ہے۔

چترال جیسے پسماندہ اور غلام ذہنیت کے حامل معاشرے میں عورتوں کو شعور دینے اور انہیں  معاشرے کے صحت مند سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع فراہم کرنے اور حوصلہ افزائی کرنے پر ہم تحریک انصاف سمیت ان تمام سیاسی پارٹیوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو اس کار خیر میں پیش پیش رہتے ہیں۔ اور ان تمام خواتین کی بھر پور حوصلہ افزائی کرتے ہیں جو ان غلام ذہنیت کے مالک  لولے لفنگوں کی پروا کئے بیغر صحت مند  معاشرتی سرگرمیوں میں شریک ہوتی ہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔