اعلیٰ تعلیم کا ادھورا خواب

……….محمد شریف شکیب

تعلیم کی اہمیت پر دین اسلام نے جتنا زور دیا ہے۔ دنیا کے کسی دوسرے مذہب میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ سرکار دوعالم پر جو پہلی وحی نازل ہوئی۔ اس کا پہلا حرف ’’ اقراء ‘‘ بھی حصول علم کی اہمیت اور افادیت پر دلالت کرتا ہے۔ سرور کائنات نے انتہائی واضح الفاظ میں علم کی ضرورت پر زور دیا ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اور علم حاصل کرو۔ چاہے اس کے لئے چین تک بھی جانا پڑے۔ جب تک مسلمانوں نے علم کی اپنی میراث کی حفاظت کی۔ انہوں نے ہفت اقلیم پر حکمرانی کی۔ جب اس میراث کو چھوڑا۔ تو دنیا میں محکوم اور مغلوب ہوگئے۔ ہم میں سے کچھ لوگوں نے علم کو صرف دین کی تعلیم تک محدود رکھا تو کسی نے اسے سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم سے تعبیر کیا۔اور کچھ نے علم کو تاریخ ، جغرافیے اور ریاضی سیکھنے تک محدود کرنے کی کوشش کی۔ علم میں دین اور دنیا دونوں شامل ہیں۔ اگر چین جاکر علم حاصل کرنے کاحکم ہے تو اس سے مراد دینی تعلیم نہیں۔ چین میں ظہور اسلام کے وقت دین کا علم سکھایا جاتا تھا۔ نہ آج وہاں کوئی بڑا دینی مدرسہ موجود ہے۔ ہمارے ہاں ہر حکومت نے تعلیم کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرنے کا دعویٰ تو کیا۔ مگر کسی بھی حکومت نے اسے دانستہ طور پرمناسب اہمیت نہیں دی جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ حکمران اس ملک میں جاگیردارانہ نظام کا تسلسل چاہتے تھے۔ انہیں یہ گوارہ نہیں تھا کہ کسی غریب آدمی کا قابل بیٹا پڑھ لکھ کر ان پر حکومت کرے۔ ہمارے حکمران، سیاسی لیڈراور بڑے افسران اپنے بچوں کو پڑھانے کے لئے باہر بھیجتے رہے۔ واپس آکروہی اپنے بڑوں کی جگہ سنبھالتے اور ہمارے حکمران بن جاتے ہیں۔اور گذشتہ ستر سالوں سے ہم مخصوص طبقے کی غلامی کر رہے ہیں۔ اور ستم ظریفی یہ ہے اس غلامانہ زندگی پر نہ صرف قانع بلکہ خوش بھی ہیں۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی نسبت خیبر پختونخوا میں صورتحال نسبتاً بہتر تھی۔2013 میں جب تحریک انصاف اقدار میں آئی تو انہوں نے تعلیم اور صحت کو اپنی ترجیحات میں شامل کرلیا۔ اور تعلیم کے بجٹ میں کئی گنا اضافہ بھی کردیا۔ہزاروں کی تعداد میں اساتذہ بھرتی کئے گئے۔ ان کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کیا گیا۔جس کی بدولت ہائر سیکنڈری کی سطح تک تعلیم میں بہتری کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ لیکن اعلیٰ تعلیم کے اداروں پر حکومت نے اب تک توجہ نہیں دی۔ صوبے میں یونیورسٹیوں کی تعداد تو بڑھتی جارہی ہے لیکن اعلیٰ اور معیاری تعلیم عام لوگوں کی دسترس سے دور ہوتی جارہی ہے۔ یونیورسٹیوں میں داخلے کے لئے انٹری ٹیسٹ کا نظام متعارف کرایا گیا تاکہ نقل کے ذریعے زیادہ نمبر لینے والوں کو چھانا جاسکے اور قابل طلبا کو اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں داخلہ مل سکے۔ پھر انٹری ٹیسٹ کا نظام ختم کرکے دوبارہ نمبروں کی بنیاد پر داخلوں کی پالیسی اختیار کی گئی۔اس کے باوجود بچوں کی بڑی تعداد حصول علم کے لئے ان درسگاہوں کا رخ کرنے لگی۔ تو بھاری بھر کم فیسوں کا ڈھانچہ کھڑا کرکے غریب کے بچوں کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ شام کی کلاسیں شروع کردی گئیں اور سیلف فنانس کا بدنام زمانہ نظام متعارف کرایا گیا۔ سرکاری یونیورسٹیوں میں سمسٹر کی بھاری فیسوں کے خلاف طلباکئی ہفتوں تک سراپا احتجاج بنے رہے مگر ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔کسی مجبوری کی وجہ سے سمسٹر کی فیس بروقت ادا نہ کرنے والے طلبا کو مہلت دی جاتی تھی کہ وہ آخری سمسٹر کے خاتمے تک اپنے واجبات بے باق کریں۔اب یونیورسٹیوں میں نیا قانون رائج کیا گیا ہے کہ جب ایک سمسٹر کی فیس جمع نہیں ہوئی تو طلبا کو امتحان میں بیٹھنے نہیں دیا جائے
گا۔ اس غیر منطقی اور تعلیم دشمن پالیسی کی وجہ سے سینکڑوں ہونہار طلبا پر تعلیم کے دروازے بند ہوچکے ہیں۔دوسری جانب ہائر ایجوکیشن کمیشن نے یونیورسٹیوں کو دی جانے والی گرانٹ میں نصف سے زیادہ کمی کردی ہے اور یونیورسٹیوں کو اپنے وسائل خود پیدا کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ٹارگٹ فیسوں میں سالانہ ہوشرباء اضافے کی شکل میں ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔اور اسی پالیسی پر صوبے کی سرکاری یونیورسٹیاں عمل پیرا ہیں۔معاشرے میں تبدیلی لانے کی دعویدار سرکار سے ہمارا یہی معصومانہ سوال ہے کہ کیا تعلیم کے بغیر تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں پر اعلیٰ تعلیم کے دروازے کیوں بند کئے جارہے ہیں۔ صوبائی حکومت اور محکمہ اعلیٰ تعلیم کے ارباب اختیار کو اپنی گوناگون مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر جامعات میں خوار ہونے والے نونہالان قوم کی حالت زارپر بھی توجہ دینی چاہئے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔