لاوارث چترال ۔۔۔۔

پامال نہ ہوجائے ستاروں کی آبرو۔۔۔۔۔ اے میرے خوش خرم ذرا آنکھ توملائو

19 سال بعد جب ملک میں مردم شماری، خانہ شماری کا فیصلہ کیا گیا تو چترال کے سب لوگ اس خیال میں تھے کہ چترال کی آبادی دگنی ہوگی اور آبادی کے حساب سے چترال کے لئے فنڈز کا اجرا بھی بڑھ جائے گا اور مسائل پر کسی حد تک قابو پانے میں مدد ملے گی ۔ مگر کون جانتا تھا کہ سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں۔ 19 سال بعد ہونے والے مردم شماری 25 مئی 2017ء کو مکمل ہوئےاورآگست میں نتائج کا اعلان کیا گیا۔ توچترال کی آبادی جو کہ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق تین لاکھ اٹھارہ ہزارچھ سو نواسی نفوس پر مشتمل تھا اور 19 سال بعد صرف ایک لاکھ اٹئیس ہزار چھ سو ترہتر نفوس کی اضافے کے ساتھ چار لاکھ سنتالیس ہزارتین سوباہسٹھ تک پہنچ سکی۔ آبادی دوسرے ضلعوں کی طرح یہاں بھی بڑھی تھی مگر مردم شماری میں تعداد کم آنے کی وجہ چترال کے خراب موسم اور تلاش روز گار میں چترال سے بڑی تعداد میں لوگوں کی دوسرے بڑے شہروں کی طرف منتقلی ہے۔ مگر مردم شماری کے یہ نتائج کسی حد تک لوگوں کو متاثرکئے اور عام لوگوں میں مایوسی بھی پھیل گئی۔ مردم شماری کے اس غیر یقینی نتائج کے خلاف چترال کا کوئی سیاسی نمائندہ اور نہ ہی ممبران صوبائی اور قومی اسمبلی کوئی آواز اٹھائے۔ کیونکہ ان کو کوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔اسلئے وہ حسب روایت خاموشی کو ترجیح دئیے گویا عوامی مسائل پر خاموشی ان کو وراثت میں ملی ہو۔ مگر جونہی19 دسمبر 2017ء کو ضبط کا قانون یعنی ڈیلیمیٹیشن کا قانون جب سینٹ سے منظور ہوا اور اس قانون کے تحت آبادی کے حساب سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کو دوبارہ تبدیل کرکے آبادی کے حساب سے بحال کرنے کی اجازت الیکشن کمیشن کو دی گئی اور اس قانون کے تحت چترال کی آبادی مطلویہ مقدار پر پورا نہ اتر سکی اور یوں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستون کی کٹوتی سامنے آئی، تو چترال کے نام نہاد سیاستدانون کو ہضم نہ ہوئی کیونکہ اس بار نقصان عوام سے زیادہ ان کو (سیاستدانون کو) ہو رہا تھا۔ وہ تمام سیاسی نمائندے جو کل تک ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے تھے۔ ایک دوسرے کے منہ تک دیکھنے کو تیار نہ تھے، موقع دیکھ کر دست و گریباں ہونے والے تھے، ذاتی مفاد کی تحفظ کے خاطر سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ ان کی پہلی نشست جو کہ فاٹا چیمبر آف کامرس کے دفتر میں ہوئی تھی۔ مجھ ناچیز کو بھی اس اجلاس میں شرکت کرنے کا موقع ملا تھا، اور اس وقت بھی اپنے باری میں انہیں یہ واضح کیا تھا کہ یہ اجلاس گو کہ چترال کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے بلائی گئی ہے مگر حقیقت میں سیاسی نمائندوں کو ذاتی نقصان ہوئی ہے ورنہ عوامی مفاد میں وہ کبھی یکجا نہیں ہوتے۔اس پر ناراضگی کا اظہار تو کرلئے مگر کیا کر لیتے! کڑوا سچ سہنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد سیاستدانوں کا اجلاس پہ اجلاس بلانے کا سلسلہ جاری رہا اور تصاویر فیس بک پر اپلوڈ ہوتے گئے اور ایک لمحے کے لئے یوں لگ رہا تھا کہ گویا یہ ہمارے اوپر احسان جتا رہے ہیں۔ اور ہوا یوں کہ الیکشن کمیشن میں کیس درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور کل جب کیس کی سنوائی ہو رہی تھی تو یہ سارے ایک ساتھ بیٹھ کر انتظار کر رہے تھے اور اپنے مفاد کی تحفظ کا جال عوام پر ڈلنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ اور یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہتے تھے کہ اس سیٹ کی بحالی سے خلق خدا کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ مگر ہمیں یہ احساس ہو چکا ہے کہ آستین کے سانپ ہمیشہ اسی کو ڈھستا ہے جس کے آستین میں ہوتا ہے۔ کیس میں ناکامی کی خبر سن کر منہ لٹکا کر باہر آئے اور واپس اس کوشش میں مگن ہوئے کہ ایک سیٹ پر الیکشن لڑنا کے لئے کونسا منافقت کام آئے گی۔ اور یہ بات اٹل ہے کہ آنے والے ہفتے کو یہ ایکدوسرے پر تنقید کا سلسلہ شروع کریں گے اور خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کریں گے۔ حالانکہ اس مسلئے میں اگر کسی سے غفلت ہوئی ہے تو وہ ہمارے ممبران صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی ہیں جنہون نے ڈیلیمیٹیشن کا قانون پاس ہوتے وقت کوئی کردار ادا نہ کر سکے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ جب یہ قانون سازی ہو رہا تھا چترال میں ایکدوسرے کو کافر قرار دینے کا سلسلہ زور شور سے جاری تھے ۔ نشست کھو دینے بعد محمود ایاز ایک ہو کر جدجہد میں لگے مگر ناکام رہے۔ اور رہی بات ممبر قومی اسمبلی کا! تو وہ اس خوش فہمی میں تھا کہ انہوں نے قوم کو اندھروں سے نکال کر روشنی میں کھینچ لایا ہے اور کوئی قوت اسے نہیں ہارا سکتا مگر قوم کے مستقبل کو اندھرے میں دھکیل کر حال کی روشنی کبھی بھی مستقل روشنی نہیں ہوتی۔ ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ۔۔۔ جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی اس دور کی سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔