تورکہو کے مختلف گاوں کے لیے بجلی اور ریچ رابط پل فی الفور تعمیر کرنے کا مطالبہ

………وقاص احمد ایڈوکیٹ ………

اللہ کے کرم سے گولین گول ھائیڈرل پاور کوغذی سے چترال شہر کے بجلی کی قلت کافی حد تک حل ہو چکی ہے چونکہ یہ فیڈرل سبجیکٹ ہے اس لیے ہم فیڈرل گورنمنٹ اور ساتھ ہی صوبائی حکومت کا بھی شکر گزار ہیں لیکن 2015 سے تاحال ریشن پاور ہاوس پر کوئی کام نہیں ہوا ہے اگر ساتھ ہی صوبائی گورنمنٹ اور ایم پی اے مستوج سنجیدگی سے کام کر تے تو یہ کام بھی ہو سکتا تھا ہم اس غفلت میں صوبائی حکومت کو مریدالزام نہیں ٹہرا سکتے ہیں کیونکہ ہمارے منتخب نمائیدوں نے انتہائی کمزوری کا مظاہرہ کیے ہیں خیر یہ تو قصہ قرینہ بن گیا ہے اپ چونکہ چترال کو 30 میگاورٹ بجلی دی گئی ہے چترال شہر کے علاوہ اور بھی کافی علاقے بجلی سے مستفید ہو رہے ہیں اور بھی کافی بجلی موجود ہے لیکن علاقہ تورکھو میں بہت سے گاوں اب بھی بجلی سے محروم ہیں گاوں کھوت ,واشچ ,زنگ لشٹ ,اجنو,ریچ,اورمیڑپ تا حال بجلی سے محروم ہیں ۔میں مزکورہ علاقوں کےعوام کے آواز سوشل میڈیا کے زریعے متلقہ حکام تک پہنچاناچاہتا ہوں اور جناب ایم این اے شہزادہ افتخار الدین سے گزارش کر تا ہوں کہ وہ اپنے تمام صلاحیتوں کو بروے کار لاتے ہوے الیکشن 2018 سے پہلے مزکورہ علاقوں تک بجلی پہنچائے اور عوام کی نمائندگی کا حق ادا کریں اور ان لوگوں کو سڑکوں پرآنے کے لیے مجبور نہ کریں عوامی مسائل کی نشاندھی عوام کا کام ہیں اورعوام کی خدمت منتحب نمائندوں کا کام ہو تا ہے ………اس کے علاوہ ریچ اجنو رابط پل کو چند مہنے قبل جلایا گیا تھا اور عارضی طور پر اپنی مدداپ کے تحت ایک پل تعمیر کیاگیا تھا وہ پل گرمی شروع ہوتے ہی چند دن کا مہمان رہ گیاہے یہ پل مذید ایک مہنے تک آمدرفت کے قابل ہوگا ایک مہینے کے بعد یہ پل یا تو خود دریا برد ہو جائے گا یا کسی بھی وقت کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتاہے اگر اس پل پر فی الفور کام شروع نہ کیا گیا تو ریچ گاوں کی 15000 آبادی مکمل طور پر چترال کے دوسرے علاقوں سے منقطع ہو جائےگا اورہائی سکول اُجنو اور گاوں ریچ تک رسائی کے لیے کوئ متبادل راستہ بھی موجود نہیں اور یہ علاقہ مکمل طور پر محسور رہ جائےگا لہذا جناب ڈی سی چترال اورایکسین صاحب مذید پریشانی سے پہلے اس چیز کا بھی نوٹس لیں……….

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔