اس سے پہلے کہ بے وفا ہوجائیں

……….محمد شریف شکیب……….
قومی اور صوبائی اسمبلیاں 28مئی کو اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرکے تحلیل ہونے جارہی ہیں۔ عام انتخابات قریب آنے کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں بھی غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے عوامی اجتماعات کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ شمولیتی تقریبات بھی زوروں پر ہیں۔ موسمی پرندوں کی ایک شاخ سے دوسری شاخ منتقلی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ شہباز شریف کے دورہ پشاور کے موقع پر تحریک انصاف کے منتخب رکن قومی اسمبلی سراج محمد نے مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کردیا۔ اگلے روز قومی اسمبلی کے حلقہ این سے چار سے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے ارباب عامر سے شکست کھانے والے مسلم لیگی امیدوار ناصر خان موسیٰ زئی نے بنی گالا کی یاترا کرکے تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کردیا۔ اسی دوران تحریک انصاف کے ناراض ایم پی اے جاوید نسیم مسلم لیگ ق میں شمولیت کے لئے پر تول رہے ہیں۔جنوبی اضلاع کے بااثر سیاسی خاندان کے کچھ افراد تحریک انصاف میں شامل ہوچکے ہیں جبکہ پی ٹی آئی اور مروت اتحاد گروپ کے درمیان انتخابی اتحاد پر اتفاق ہوچکا ہے۔ جس کے تحت قومی اسمبلی کی نشست پر تحریک انصاف مروت اتحاد کی حمایت کرے گی جبکہ صوبائی اسمبلی کی تین نشستوں پر پی ٹی آئی کے مقابلے میں مروت اتحاد اپنا امیدوار نہیں لائے گا۔فصلی بیٹروں میں گویا نئی جان پڑ گئی ہے۔ اور ان کے دام بھی روزبروز بڑھ رہے ہیں۔ادھر جنوبی پنجاب کے آٹھ سے دس منتخب ارکان نے مسلم لیگ ن کے مقابلے میں علم بغاوت بلند کردیا ہے۔ سندھ میں بھی جوڑ توڑ کا بازار گرم ہے۔ سارا چکر ٹکٹ کے حصول کا ہے۔تحریک انصاف نے سینٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کرنے والے ایک درجن سے زائد ارکان کو آئندہ انتخابات میں ٹکٹ نہ دینے کا اعلان کیا ہے تاہم پارٹی نے سینٹ انتخابات میں اپنے دام کھرے کرنے والے اپنے ایم پی ایز کے نام صیغہ راز میں رکھے ہیں۔جس پر انہیں پارٹی قیادت کا شکر گذار ہونا چاہئے۔اگر پارٹی کا ٹکٹ نہ ملا۔ تو کیا ہوا۔ ان کی کارکردگی سے اگر عوام مطمئن ہیں تو وہ آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے کر بھی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ آزاد ممبر بننے کا فائدہ یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں عددی اکثریت دکھانے کے لئے انہیں ہیرے موتیوں میں تول کر خرید لیتے ہیں اور وزیر ، مشیر بننے کے امکانات بھی روشن ہوتے ہیں۔خوش آئند بات یہ ہے کہ غیر یقینی سیاسی صورتحال کے باوجود منتخب جمہوری حکومتیں متواتر دوسری بار اپنی آئینی مدت پوری کرنے جارہی ہیں۔جمہوری عمل یونہی بلاتعطل چلتا رہا تو سارے گندے انڈے تھیلے سے باہر ہوں گے اور جمہوری اداروں کی تطہیر ہوگی۔سیاسی پارٹیاں مخالف کیمپ سے آنے والوں کے لئے دیدہ و دل فرش راہ تو کر رہی ہیں لیکن ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت انہیں لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں ایک انار سو بیمار والی صورتحال میں ان کے لئے موزوں امیدوار کا انتخاب مشکل ہوجائے گا۔پارٹیاں بدلنے والے سارے ہی لوگ ٹکٹ کا ون پوائنٹ ایجنڈا لے کر آتے ہیں۔ یہ سیاسی پارٹیوں کی غلط فہمی ہے کہ دوسری جماعتوں کے لوگ ان کے انقلابی منشور، غیر معمولی کارکردگی یا انتہائی فعال قیادت سے متاثر ہوکر ان کے ساتھ شامل ہورہے ہیں۔ خیر سے فی الحال ہمارے ہاں کوئی ایک پارٹی بھی ایسی نہیں۔ جس کے منشور کو انقلابی قرار دیا جاسکے۔ یا جس کی کارکردگی حیران کن ہو۔ یا اس کی قیادت میں محمد علی جناح یا ذوالفقار علی بھٹو جیسا کرشمہ ہو۔فصلی بٹیروں کا المیہ یہ ہے کہ وہ ہوا کا رخ دیکھ کر اسی جانب چل پڑتے ہیں۔ دو چار یا آٹھ دس لوگوں کی شمولیت کسی پارٹی کی غیر معمولی مقبولیت کی ضمانت نہیں ہوتی۔ ابھی تو موجودہ حکومت کے چار چھ ہفتے باقی ہیں اس کے بعد نگران حکومت آئے گی اور انتخابی معرکے کا وقت آتے آتے مشرق سے مغرب کی طرف چلنے والی ہواوں کا رخ شمال سے جنوب کی طرف بھی ہوسکتا ہے۔انتخابات کے اصل سٹاک ہولڈر یعنی رائے دہندگان خاموشی سے بدلتی ہوئی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ وہ سیاسی وفاداریاں بدلنے والوں پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ وہ ہواوں کے رخ اور رفتار کو بھی دیکھ رہے ہیں۔انتخابی میدان ساون کے مہینے میں سجنے والا ہے۔ اس وقت تک حالات کتنے کروٹ بدلتے ہیں ۔ یہ کوئی نہیں جانتا۔تاہم سیاسی گھونسلے بدلنے والے اگراحمد فراز کے ان الفاظ کواپنی گرہ میں باندھ لیں تو انہیں بار بار شرمندگی اٹھانے سے نجات مل سکتی ہے۔
اس سے پہلے کہ بے وفا ہوجائیں کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں
تو بھی ہیرے سے بن گیا پتھر ہم بھی کل جانے کیا سے کیا ہوجائیں
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔