حقیقت یا فسانہ

                                                                                       کالم نگار :مفتی محمد غیاث الدین

                                                             …………………   لیکچرر گورنمنٹ ڈگری کالج چترال

 

ہر مہذب معاشرے میں تنقید کی وہ صورت قابلِ قدر سمجھی جاتی ہے جو بغرضِ اصلاح ہو،یقیناً ایسی تنقید سے افراد میں نکھار پیدا ہوتاہے جو معاشرے میں امن وآشتی اور اس کو صحیح سمت کی طرف لے جانے کا باعث بنتاہے ، ایسی تنقید کی صحت وافادیت واہمیت ہر فطرتِ سلیمہ رکھنے والے کے نزدیک مسلم ہے،ظاہر ہے کہ جب افراد کو اور افرادسے بنے معاشرے کو اپنے عیوب کا علم نہیں ہوگا تو اُن کی اصلاح کی طرف توجہ کیسے ہوگی۔لیکن تنقید کی ایک دوسری قسم بھی ہے جسے تنقید برائے تنقید کہا جاتا ہے، اس میں افراد یا معاشرے کی اصلاح مقصود نہیں ہوتی،بلکہ مقصدسوسائٹی میں ہیجان پیدا کرنا اور اپنے دل کی بھڑاس نکالنا ہوتا ہے۔۔۔۔بلاشبہ آزادی بہت بڑی نعمت اور اس کا مسلوب ہونا بہت بڑی آزمائش اور عذاب ہے،لیکن آزادئ اظہارِ رائی کے نام سے آج خصوصاً سوشل میڈیامیں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہر اینڈرائیڈ موبائل رکھنے والے کے سامنے طشت از بام  ہے،سوشل میڈیا کو اگر صحیح سمت میں استعمال کیا جائے تو یقیناً یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و نعمت ہے اس سے ہم اپنے معاشرے کی اصلاح کرکے اس کو جنت نظیر بنا سکتے ہیں،خود کی اصلاح بھی کر سکتے ہیں دوسروں کی اصلاح کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں ،لیکن ہم نے اس کو اپنے لئے زحمت اور معاشرے کی تباہی کا ذریعہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔

        “تنقید سے کوئی بھی بالا تر نہیں” اور “رائی کی آزادی کا ہر ایک کو حق حاصل ہے” یہ دو ایسے جملے ہیں جن کو ہم میں سے بعض حضرات علماء کرام کے خلاف ہتک آمیز بیانات کے لاحقے اور سابقےکی حیثیت سےبطورِ دلیل خوب استعمال کرتے ہیں،اس دلیل کی حقیقت اور اس کے محلِ استعمال میں کلام کی کافی گنجائش ہے تاہم اس سے پہلو تہی کرتے ہوئے ہم یہاں صرف قرآن وسنت کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کرنے جارہے ہیں کہ وہ انسان کتنے بڑے خسارے میں ہے جو علماء کرام کی بلا جوازشرعی تحقیر کو اپنے لئے باعث ِ فخر سمجھتا ہے۔اور اس کارِ بے کار کے پسِ پردہ بعض کے شاید دنیوی مقاصد بھی ہوں لیکن اکثر وبیشتر  خسر الدنیا و الآخرۃ کا مصداق بن کر اس میں شریک ہوتے ہیں۔

        بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہےکہ:وہ شخص میری اُمت میں سے نہیں ہے جو ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے،ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے علماء کی قدر نہ کرے۔عجیب  بات ہے ایک شخص جو علماء کرام کی ناقدری ہی نہیں بلکہ انہیں سرِ عام گالیاں دینے کے بعد بھی اپنے آپ کو اُمتِ محمدیہ میں گردانتا ہے،لیکن صاحبِ اُمت ایسے انسان کو اپنی اُمت میں شمارکرنے کے لئے آمادہ نہیں۔۔۔۔ہے نا عجیب بات۔

        ایک حدیث میں آتا ہےکہ:یا تو عالم بن یا طالبِ علم یا علم کا سننے والا یا علم و علماء سے محبت رکھنے والا، پانچویں نہ بن ورنہ ہلاک ہو جائے گا۔حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:پانچویں قسم سے مراد علماء سے دشمنی اور بغض رکھنے والا ہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے: والجاھلون لاھل العلم اعداء”،یعنی اہلِ علم کے دشمن جاہل لوگ ہوتے ہیں۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام سے خطاب فرماتے ہوئے یہ دعاء فرمائی کہ: تم ایسے زمانے کو نہ پاؤ جس میں عالم کا اتباع نہ کیا جائے حلیم سے شرم نہ کی جائے،اس زمانے کے لوگوں کےدل عجمی جیسے ہوں گےاور زبانیں عرب جیسی۔یعنی دینی اعتبار سے وہ سنگ دل ہوں گے ،اور اُن کی زبان سے فصاحت وبلاغت کے دریا بہتے ہوں گے۔ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تین شخص ایسے ہیں جن کو منافق کے سوا کوئی شخص ہلکااور ذلیل نہیں سمجھ سکتا، ایک وہ شخص جو اسلام کی حالت میں بوڑھا ہو گیا ہو،دوسرے اہلِ علم اور تیسرے منصف بادشاہ۔

حضرت مولانا  مفتی عبد الحئ صاحب قدس اللہ سرہ اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں کہ  اگر علماء کو گالی دینے والے کا مقصد تحقیرِ علم ہے تو فقہاء اس کے کفر کا فتویٰ دیتے ہیں اور اگر کسی دوسری وجہ سے وہ گالی دیتا ہے تب بھی ایسے شخص کےفاسق وفاجر ہونے میں اور اللہ کے غصہ اور دنیا وآخرت کے عذاب کا مستحق ہونے میں شبہ نہیں ہے۔

        حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب میری اُمت اپنے علماء سے بغض رکھنے لگے گی،اور بازاروں کی عمارتوں کو بلند اور غالب کرنے لگے گی،اور مال ودولت کے ہونے پر نکاح کرنے لگے گی(یعنی نکاح کے وقت دین داری کے بجائے دولت کو دیکھا جائے گا)تو اللہ تعالیٰ چار قسم کے عذاب اس پر مسلط فرمادیں گے، قحط سالی ہو گی ،بادشاہ کی طرف سے مظالم ہونے لگیں گے،حکام خیانت کرنے لگیں گے اور دشمنوں کے پے درپے حملے ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حق بولنے، سننے ،اس پر عمل کرنے اور تنقید برائے تنقید سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔