شرابی کی مردہ بیوی

………….محمد شریف شکیب…………

قومی اقتصادی کونسل نے چوتھی بار بھاشا دیامر ڈیم کی منظوری دیدی ہے۔ منصوبے پر لاگت کا تحمینہ چار کھرب 74ارب روپے لگایا گیا ہے۔ ڈیم میں چھ اعشاریہ چار ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوگی اور اس سے چار ہزار پانچ سو میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔ بھاشا دیامر ڈیم کی تعمیر سے پاکستان کی قومی آبی ذخائر کی گنجائش 38دنوں سے بڑھ کر 45دن ہوجائے گی اور ڈاون سٹریم ڈیموں میں پانی کے ذخائر بھی بڑھ جائیں گے۔اخبار میں یہ خبر پڑھ کر اس شرابی کا واقعہ یاد آیا۔ جس کی بیوی شدید بیمار تھی۔ دوست، احباب مریضہ کے پاس بیٹھے تھے اور شوہر نشے میں دھت ایک کمرے میں بے سدھ پڑا تھا۔ اس دوران مریضہ کی سانسیں اکھڑنے لگیں۔ مریضہ کے پاس موجود لوگوں نے ان کے شوہر کوجاکر بتایا مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوا۔ بیوی کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ رشتہ داروں نے میت کو تیار کرکے رکھ دیا اور دو تین افراد اس کے شوہر کے پاس گئے تاکہ بیوی کی وفات کا بتاکر ان سے تعزیت کرسکیں۔ انہوں نے دکھ بھرے لہجے میں مریضہ کے انتقال کی خبر اسے سنا دی۔ مگر شرابی نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ تعزیت کے لئے جانے والے شرمندہ ہوکر واپس آگئے۔ گھنٹے دو گھنٹے بعد انہوں نے سوچا کہ شراب کا نشہ اب تک اتر چکا ہوگا۔ اب جاکر اسے بیوی کی وفات کے بارے میں بتانا چاہئے۔ وہ دوبارہ شوہر کے کمرے میں گئے اور انہیں بتایا کہ اس کی بیوی کا انتقال ہوگیا۔خبر سن کر شوہر کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں اور تعزیت کرنے والوں سے پوچھا کہَ ’’ میری بیوی کا دو گھنٹہ پہلے انتقال ہوچکا تھا۔ کیا پھر سے ان کا انتقال ہوگیا ہے‘‘۔دیامر بھاشا ڈیم کی کہانی کافی پرانی ہے اب تک تین وزرائے اعظم اس کا افتتاح کرچکے ہیں۔مگر عملی کام اب تک شروع نہیں ہوسکا۔جنوری 2006میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے ملک کی آبی ضروریات پوری کرنے کے لئے پانچ ڈیم تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔نومبر2008میں قومی اقتصادی کونسل نے دیامر ڈیم کی پہلی بار منظوری دیدی۔ اس وقت منصوبے پر لاگت کا تحمینہ چودہ ارب ڈالر تھا اور ڈالر کی قیمت پاکستانی کرنسی میں45 روپے تھی۔18اکتوبر2011کو اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے دیامر بھاشا ڈیم کے تعمیراتی کام کا افتتاح کیا۔ پروگرام کے مطابق ڈیم کو بارہ سال کی مدت میں 2023میں مکمل ہونا تھا۔ گلگت بلتستان کے علاقہ دیامر میں تعمیر ہونے والے اس ڈیم کی زد میں خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان کا علاقہ بھاشا بھی آرہا تھا اس لئے اس کا نام دیامر بھاشا ڈیم رکھا گیا۔ منصوبے کے لئے عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے قرضہ فراہم کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا۔ تاہم 2012میں دونوں مالیاتی اداروں نے فنڈز کی فراہمی کو یہ کہہ کر مشروط کردیا کہ چونکہ یہ علاقہ متنازعہ ہے اس لئے پاکستان کو ڈیم کی تعمیر کے لئے بھارت سے این او سی لانا ہوگا۔ اگست2013میں اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے یہ خوشخبری سنائی کہ دیامر بھاشا ڈیم کے لئے فنڈز کے اجراء پر عالمی بینک کو راضی کرلیا گیا۔ عالمی بینک کے علاوہ آغا خان فاونڈیشن نے بھی فنڈز فراہم کرنے کا وعدہ کیاہے اب بھارت سے این او سی لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ نومبر2013میں چیئرمین واپڈا سید راغب عباس شاہ نے دعویٰ کیا کہ ڈیم کے لئے ساڑھے پانچ ارب روپے کی لاگت سے سترہ ہزار ایکڑ اراضی گلگت بلتستان کی حکومت اور اسماعیلی کمیونٹی سے حاصل کرلی گئی ہے۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومت نے تین مرتبہ اس ڈیم کا افتتاح کیا۔ مگر بات تختی کی نقاب کشائی سے آگے نہ بڑھ سکی۔ نومبر2017میں حکومت نے پاک چین اقتصادی راہداری کے پیش نظر دیامر بھاشا ڈیم کا منصوبہ ملتوی کرنے کا عندیہ دیا۔ اب اپریل 2018میں پھر قومی اقتصادی کونسل نے اس کی منظوری دیدی اب کی بار اس پر لاگت کا تحمینہ بھی دوگنا ہوگیا ہے۔ یہ بھی واضح نہیں کہ اتنے بڑے منصوبے کے لئے وسائل کہاں سے آئیں گے۔دیامربھاشا ڈیم کا منصوبہ قول سے فعل میں تبدیل ہونے میں شاید مزید کئی عشرے لگیں گے۔ اس لئے کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔موجودہ حکومت کی مدت ویسے بھی اگلے مہینے ختم ہورہی ہے۔ انتخابات قریب آتے ہی بھاشا ڈیم کے ساتھ کالاباغ ڈیم کی صدائے بازگشت بھی سنائی دینے لگی ہے۔ بعض بزلہ سنج قسم کے سیاسی لیڈروں کا کہنا ہے کہ حکمران مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی لاحاصل کوشش کر رہے ہیں۔آج تک نہ مردہ گھوڑا دوبارہ زندہ ہوا ہے ۔ نہ شرابی کی مردہ بیوی کا دوبارہ انتقال ہوسکا ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔