کالاش تحفظ کی تلاش

………..ڈاکٹرعنایت اللہ فیضیؔ ……..
یہ یونیسکو (UNESCO) کاورک شاپ تھاپشاور کے فائیو سٹار ہوٹل کا بورڈ روم تحفظ کی تلا ش میں نکلے ہوئے ماہرین سے بھرا ہوا تھا ماہرین کے ساتھ ساتھ سرکاری حکام مقامی آبادی کے لوگ اور خود کالاش رضا کار بھی آئے ہوئے تھے مگر اُن کو تحفظ سے زیادہ ’’شناخت ‘‘ کی تلاش تھی وزیر زادہ کالاش کو اس بات پر تعجب ہے کہ 1972ء میں شناختی کارڈ کا اجراء ہوا 2017ء میں کالاش کو شناختی کارڈ میں اپنا مذہب ’’ کالاش ‘‘ لکھنے کی اجازت ملی 45سالوں تک مذہب کا خانہ خالی تھا عمران کبیر کالاش کو اس بات کا دُکھ ہے کہ قیام پاکستان کو 70سال ہوگئے پانچ بار مردم شماری ہوئی کسی بھی مردم شماری میں ’’ کالاش ‘‘ کو اپنا مذہب اور اپنی زبان لکھوانے کی اجازت نہیں ملی مردم شماری رپورٹ میں کالاش کو’’ مسلمان ‘‘ دکھایا جاتا ہے مردم شماری رپورٹ اُٹھا کر دیکھ لیں 4ہزار آبادی کی وادی کالاش میں ایک بھی کالاش نہیں ملے گا سب کو مسلمان دکھایا گیا ہے ؂
عمر تو کٹ گئی عشقِ بُتاں میں مومن
آخر میں کیا خاک مسلمان ہونگے
یہ شناخت کا بحران ہے اشفاق ساگر کالاش کا کہنا ہے کہ ویلیج کونسل بمبوریت ، رمبور اور بریر میں کالاش بچے کو برتھ سرٹیفیکیٹ دینے کا سافٹ وئیر نہیں ہے مسلمان کے سرٹیفیکیٹ کا سافٹ وئیر ملتا ہے محکم الدین ایونی نے ایک بارسید سجاد حیدر یلدرم کا حوالہ دیا انہوں نے لکھاتھا ’’ مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ‘‘ کالاش کے ساتھ ہمدردی کرنے والوں نے کالاش کو شناخت سے محروم کیا نام کو مائیکل یا مسیح لکھنے والا عیسائی ہوتا ہے رام یا لعل لکھنے والا ہندو ہوتا ہے سنگھ لکھنے والا سکھ ہوتا ہے اس طرح کالاش کے روایتی نام پھولوں ، تاروں ، پرندوں کے ناموں پر رکھے
جاتے ہیں بشارا، ٹینگل ، ووری وغیرہ سے پتہ لگتا تھا کہ یہ کالاش کا نام ہے دوستوں نے کہا عربی میں نام رکھو ، کالاش نے عربی میں نام رکھنا شروع کیا بلاوش کی جگہ ’’ بے نظیر ‘‘ نام آیا لڑکوں کے نام ڈاکٹر اقبال ، ڈاکٹر انیس، قائد اعظم ، عبدا للہ جان، محمد اعظم اور فاروق اعظم ہوگئے شناخت ہی ختم ہوگئی ڈائریکٹر ارکیالوجی خیبر پختونخوا ڈاکٹر عبد الصمد خان نے اپنی افتتاحی تقریرمیں علمی نکتہ اُٹھایا انہوں نے کہا کہ عرصہ سے یہ بات گردش کر رہی تھی کہ کالاش سکندر اعظم کی اولاد ہیں جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ یہ محض واہمہ تھا محض خیال تھا کالاش کا یونان ، مقدونیہ اور سکندر اعظم سے کوئی تعلق نہیں کالاش مقامی آبادی ہے ہزاروں سال پہلے اسی مٹی سے اُٹھے ۔ یہاں حکومت کی یہاں ان کا جدی پشتی مسکن ہے وہ اسی زمین کے باسی ہیں شہزادہ سراج الملک نے دو کتابوں کے حوالے دیے انیسویں صدی میں شائع ہونے والے ورلڈ
اٹلس (World Atlus) میں 4ہزار سال پرانی آبادیوں کا نقشہ ہے جس میں ہندوستان اور پاکستان کا نام نہیں کافرستان کا نام ہے اور یہ ملک افغانستان کے مقام اَسمار سے لیکر چترال ، گلگت ، سکردو اور کشمیر تک پھیلا ہوا ہے دوسری کتاب 1936ء میں شائع ہوئی مصنف شومبرگ نے لکھا ہے کہ کالاش ایک منفرد قوم ہے اگلے 10سالوں میں یہ منفرد لوگ ختم ہوجائیں گے اور ان کی تہذیب معدوم ہوجائے گی کتاب کی اشاعت کو 82سال گذر گئے شومبرگ نے جس Dooms Dayکی پیش گوئی کی تھی وہ دن نہیں آیا کالاش قوم اب بھی زندہ ہے کالاش مذہب اورتہذیب اب پہلے سے زیادہ طاقتور اور توانا ہے اس میں زندہ رہنے کی صلاحیت ہے Dynamismہے Flexibilityہے یہ تہذیب زندہ رہے گی ارشاد سوڈھر نے کہا کہ کالاش پاکستان کا Soft Image ہے پاکستان کی اچھی ساکھ ہے خیبر پختونخوا کا سیاحتی ’’شوکیس ‘‘ (Show Case) ہے ان کو شعور اور آگاہی کے ساتھ ساتھ بنیادی ڈھانچے کے بڑے منصوبوں کی ضرورت ہے کالاش کی تین وادیاں باالترتیب 32کلومیٹر ، 30کلومیٹر اور 28کلومیٹر طویل ہیں ایک وادی کے لوگ دوسری وادی تک جانے کے لئے مین روڈ پر آکر دوبارہ سفر کرتے ہیں اس طرح فاصلہ دگنا ہوجاتا ہے حالانکہ تینوں وادیوں کا درمیانی فاصلہ ڈیڑھ کلومیٹر ہے حکومت نے کالاش وادی کی سڑکوں کے لئے فنڈ منظور کیا ہے نئے سکول کھل گئے ہیں صحت کی سہولتیں دی گئی ہیں ٹیلیفون کی سہولت دی گئی ہے تاہم کالاش آبادی کو مزید سہولتیں دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ نقل مکانی نہ کریں اپنے مسکن میں رہیں گے تو ان کی ثقافت زیادہ محفوظ ہوگی UNESCOکے ماہرین سلمان آصف اور Vebeke Jensenنے کالاش ثقافت کے تحفظ کے لئےSDCکے تعاون سے آنے والے نئے منصوبے کے نمایاں خدوخا ل پیش کئے منصوبے کا مقصد کالاش وادیوں میں ماحول دوست سیاحت کا فروغ اور کالاش کے ثقافتی ورثے کا تحفظ ہے مشاورتی ورکشاپ کی تین نشستوں میں گروپ ورک کے ذریعے اہم امور کی نشان دہی کی گئی ثقافتی تحفظ کے ماہر سلمان آصف نے اس بات کی وضاحت کی کہ مقامی آبادی کی ثقافت کا تحفظ یورپ اور امریکہ سے زیادہ افریقہ اور ایشیا میں ہے کالاش کی مقامی آبادی پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع تین وادیوں میں اپنی ہزاروں سال پرانی تہذیب کے ساتھ زندگی گذار رہی ہے اپنے تہوار مناتی ہے اور اپنے قدیم مذہبی عقائد کے مطابق رسومات ادا کرتی ہے یہ مشرق روایات کا حسن ہے اور مشرق میں ایسی روایات بکثرت موجود ہیں ؂
ؒ خدا کرے میری ارض پاک پہ اترے
وہ فصل گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے سدا کھلارہے یا رب
خزاں کو یہاں سے گذرنے کی مجال نہ ہو
خدا کرے میرے ایک بھی اہل وطن کے لئے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔