وفاقی بجٹ، چوہا لنڈورا ہی بھلا

………….محمد شریف شکیب…….
وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کا 59کھرب32ارب 50کروڑ روپے کا بجٹ پیش کردیاہے ۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اورپنشنوں میں دس فیصد، ہاوس رینٹ میں پچاس فیصداضافے کا اعلان کیا ہے۔ ایک لاکھ روپے ماہانہ تک کی آمدنی کو انکم ٹیکس سے مستثنیٰ قراردیا گیا ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے استفادہ کرنے والی خواتین کو اب چار ہزار آٹھ سوروپے ماہانہ ملیں گے۔ کم سے کم پنشن کی شرح چھ ہزار سے بڑھ کر دس ہزار کردی گئی۔ترقیاتی اخراجات میں دوسوارب روپے کی کمی اور دفاعی اخراجات میں ایک سو اسی ارب روپے کا اضافہ کردیاگیا۔ بجٹ کا تیس فیصد قرضوں کی اقساط اور سود کی مد میں ادا کی جائے گی۔ بجٹ میں لائیو سٹاک، زراعت، ایل ای ڈی لائٹس، ایل این جی، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، ٹائر ، سٹیشنری، نظر کے چشموں، آپٹیکل فائبر ، استعمال شدہ کپڑوں اور جوتوں کی قیمتیں کم کرنے ،ٹیکسٹائل، چمڑے کی مصنوعات، آلات جراحی اور کھیلوں کی مصنوعات پر سیلز ٹیکس برقرار رکھنے کا اعلان کیا گیا۔ نئے وزیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے بجٹ پیش کیا۔ موصوف کو صرف بجٹ پیش کرنے کے لئے وزیرخزانہ بنایا گیا ہے حالانکہ وہ پارلیمنٹ کے ممبر نہیں ہیں۔ جس پر اپوزیشن نے ایوان میں شدید ہنگامہ آرائی کی ۔بجٹ تقریر میں رخنہ ڈالنے اور وزیرخزانہ کا محاصرہ کرنے کی کوشش کی۔جہاں تک بجٹ کا تعلق ہے اسے موجودہ حالات میں متوازن بجٹ کہا جاسکتا ہے بجٹ میں عام آدمی کو کچھ نہ کچھ ریلیف دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو ایسے وقت میں بجٹ پیش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی جبکہ ان کی آئینی مدت پوری ہونے میں ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ اور رواں مالی سال 30جون کو ختم ہورہا ہے۔ تب تک کا بجٹ حکومت پچھلے سال پیش کرچکی ہے۔ بجٹ سال بھر کا میزانیہ ہوتا ہے جس میں آمدن اور اخراجات کا حساب لگایا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت پانچ سال کے لئے منتخب ہوئی تھی اور وہ پانچ مرتبہ بجٹ پیش کرچکی ہے۔ پانچ سالہ دور حکومت میں چھ بجٹ پیش کرنے کا کوئی قانونی جوازہے نہ ہی کسی جمہوری ملک میں اس کی مثال ہے ۔ 28مئی کو موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مدت ختم ہورہی ہے۔ تین ماہ کے لئے نگران حکومتیں قائم ہوں گی۔ جولائی کے اواخر میں عام انتخابات ہوں گے۔ اگست میں نئی حکومتیں قائم ہوں گی تو وہ لامحالہ اپنی پالیسی اور منشور کے مطابق بجٹ بنائیں گی۔وزیراعظم نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ اگلی حکومت بھی مسلم لیگ ن کی ہوگی اگر بدقسمتی سے کسی دوسری جماعت کی حکومت آگئی تو وہ بے شک اپنا بجٹ خود بنائے۔جب قانونی اور اخلاقی طور پر وفاقی حکومت کو اگلے سال کا بجٹ پیش کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ تو صوبائی حکومتوں کو بھی بجٹ پیش نہیں کرنا چاہئے۔ عبوری دور میں نئے ترقیاتی منصوبوں پر پابندی ہوتی ہے جس کا اعلامیہ الیکشن کمیشن جاری کرچکا ہے۔ اخراجات جاریہ کے لئے فنڈز کی فراہمی کی آئین میں واضح ہدایات موجود ہیں۔اگر معاشی حالات اس بات کے متقاضی تھے تو تین مہینے کے لئے عبوری بجٹ پیش کرنا چاہئے تھا۔اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ بجٹ پیش کرکے مسلم لیگ ن نے ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کے اپنے سیاسی نعرے کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔اور اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے بجٹ سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے جو پری پول ریگنگ کے زمرے میں آتا ہے۔ خورشید شاہ یا شاہ محمود قریشی کے الزامات کو سیاسی مخاصمت پر مخمول کیا جاسکتا ہے لیکن اس ملک کا عام آدمی بجٹ کو اس زاویے سے دیکھتا ہے کہ بے روزگاری اور مہنگائی کم کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں۔ دولت مندوں سے ٹیکس لینے کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کی گئی ہے۔ تعلیم، اور صحت کی سہولیات بہتر بنانے ، گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کم کرنے کے لئے کیا لائحہ عمل اختیار کیا گیا ہے۔ یہ وہ شعبے ہیں جن کا اس ملک کے عام آدمی سے براہ راست تعلق ہے۔ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا اعلان کرکے مبارکبادیاں وصول کرنے والے آج خود اعتراف کرتے ہیں کہ ملک میں بجلی کی ضرورت 24ہزار میگاواٹ اور پیداوار16ہزار میگاواٹ ہے۔ آٹھ ہزار میگاواٹ کی کمی پوری کرنے کے لئے آج بھی شہری علاقوں میں آٹھ سے دس اور دیہی علاقوں میں سولہ سے اٹھارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ جن علاقوں سے بلوں کی پوری ریکوری نہیں ہوتی یا بجلی چوری کی جاتی ہے۔ وہاں زیادہ لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ بجلی چوری کرنے والے یا بجلی استعمال کرنے کے باوجود بل ادا نہ کرنے والے کیا ریاست سے زیادہ طاقتور ہیں۔ حکومت ان کی بجلی منقطع کیوں نہیں کرتی۔انہیں گرفتار کیوں نہیں کیا جاتا۔ چند لوگوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے پوری قوم کو تختنہ مشق بنانا ہی جمہوریت ہے تو چوہا لنڈورا ہی بھلا۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔