نونہالان قوم فیس کے ترازو میں

صبح سویرے گھر سے آفس کے لیے نکلا تو راستے میں پرائیویٹ سکو ل کے چند طلبہ اسکول سے  واپس آتے ہوئے ملے۔ان میں ایک بچے سے میں نے پوچھا ، بیٹا واپس کیوں آئے کیا سکول چھٹی ہے ؟ تو بچے نے نہایت پریشانی اور شرمندگی سے جواب دیا ، نہیں انکل فیس جمع نہ کرنے پر ہمیں اسمبلی ہی سے واپس کیا گیا اور پرنسپل صاحب نے کہا ہے کہ جب تک فیس نہیں لاتے سکول مت آنا۔ نونہالان قوم کو صرف اس وجہ سے  سکول  کے طلبہ کے سامنے  اسمبلی سے شرمندہ کرکے واپس کیا جا رہا تھا کہ انہوں نے بروقت فیس جمع نہ کئے تھےاور سکول انتظامیہ صرف چند سو روپوں کی خاطرنونہالانِ قوم کے مستقبل سے کھیل رہے تھے۔کاش ان کو یہ اندازہ ہوا ہوتاکہ انہوں نے سکول کے چندطلبہ کو فیس آدا نہ کرنے پردرسگاہ سے دھکے دے کر نکال کرکیا یہ ثابت کرنے کی کوشش نہ کی کہ ان کو وطن عزیز اور نونہالان قوم سے کوئی دلچسپی نہیں ۔  ان کو تو صرف اپنی فیس سے مطلب ہے۔کیا ایک معمار قوم صرف چند سو روپے کی خاطر نونہالان قوم کی تقدیر سے کھیل کر اپنے معمار قوم ہونے پر سوالیہ نشان نہیں لگارہا ہے۔ کیا اس کے رویے سے یہ بات ثابت نہیں ہوتا کہ وہ خود کو معمار قوم یا محسن اقوام کہلانے کے دعوے میں ایک فی صد بھی سچا نہیں ۔کیا ان کے اس رویے سے کاروبار کی بو نہیں آتی۔ کیا معماران قوم، نونہالان قوم کو معمولی فیس کی خاطر اتنی بڑی سز ا دے سکتے ہیں۔ کیا پرائیویٹ سکولوں کے اساتذہ کرام یا سربراہان ادارہ اس بات پر غور نہیں کرتےکہ ان کےاس رویے کی وجہ سے ایک طالبعلم کی زندگی پر کیسے برے اثرات پڑ سکتے ہیں۔ ان کے اس رویے کی وجہ سے ایک طالبعلم کی تعلیمی تسلسل بھی ختم ہو سکتی ہے۔اور صرف استاد محترم کی ایک معمولی غلطی کی وجہ اس کے دل میں اساتذہ کرام، تعلیمی ادارے اور خود اپنی ذات سے بھی نفرت ہو سکتی ہےاور سربراہ مکتب یا معماران قوم کی ایک غلطی کی وجہ سے وہ کل ایک اچھے پاکستانی او ر مہذب شہری بننے کی بجائے ایک خونخوار بھڑیا اور دہشتگرد بھی بن سکتا ہے۔ کیا پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں نونہالان قوم کو فیس کی ترازو میں تول کر علم کی توہین اور تذلیل نہیں کی جارہی ۔کیا پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی فیس کی غلط طریقے سے وصولی کی وجہ سے سرزمین پاک کے شاہینوں کے پر واز میں کوتاہی نہیں آتی ۔کیا وطن عزیز کے مستقبل کے محافظوں کی عزت نفس کو مجروح کرکے ان کی پروازکو محدود اور شوق حصول علم کامزاق نہیں اڑایا جارہا ۔کیا ایک طالبعلم کو فیس کی عدم آدائیگی یا اور کسی وجہ سے سکول سے واپس کرنا اس کے ساتھ زیادتی نہیں ہے۔کیا اس غیر ذمہ درانہ فعل کی وجہ سے ایک طالبعلم کے قیمتی دن کے نقصان کو واپس لایا جا سکتا ہے۔اور کیا یہ غیر شرعی ،غیر ذمہ درا نہ فعل ، سر زمین پاک میں موجود ایجوکیشن پالیسی کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ اس کالم کے توسط سے تمام پرائیویٹ درسگاہوں کی سربراہوں اور سکول انتظامیہ سے بڑی معذرت کے ساتھ گزارش ہے۔کہ خدارا حصول علم کے لیے اپنی درسگاہوں میں آنے والے نونہالان قوم کو وصولی فیس کی خاطر پریشان کرکے ان کے معصوم ارادوں کوٹھیس پہنچانے کی بجائے ان کو پر سکون تعلیمی ماحول فراہم کرکے ملک و قوم اور نونہالان قوم پر احسان کیا جائے اور سکول فیس یا بقایاجات کے سلسلے میں طالبعلموں کو پریشان کرنے کی بجائے والدین سے خط و کتابت یا ٹیلیفونک رابطہ کرکے معاملہ حل کیا جائے ساتھ ہی اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں داخل کرنے والے والدین سے بھی درخواست ہے۔کہ خدارا اپنے بچوں کی فیس بروقت آدا کرتے رہیں۔کیونکہ تمام پرائیویٹ تعلیمی ادارے صرف اور صرف اس میں پڑھنے والے بچوں کی فیس سے چلائے جاتے ہیں۔ جہاں اساتذہ کو تنخواہوں کی آدائیگی طلباء کی فیس سے ہوتی ہے وہاں درسگاہوں کے دیگر ضروری اشیاء بھی انہی پیسوں سے خریدی جاتی ہیں۔ اس لئے والدین کو بھی اس معاملے میں سکول انتظامیہ سے مکمل تعاون کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر وصولی فیس کے اس تکرار کی وجہ سے نونہالان قوم کامستقبل تاریک ہو سکتا ہے۔جس کی تمام ترذمہ داری سکول انتظامیہ کے ساتھ ساتھ یقینی طور پر والدین پر بھی عائد ہو گی اور جو والدین پرائیویٹ سکولوں میں پڑھنے والے اپنے بچوں کی فیس آدا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔انہیں چاہیے کہ اپنے بچوں کو سرکاری درسگاہوں میں داخل کرائیں۔جہاں بغیر فیس کے بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ تاکہ سانپ بھی مرے  اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے

بشکریہ زیل نیوز

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔