دھڑکنوں کی زبان …. شاکرین استاد

’’شاکرین استاد پنشن پہ گیا ‘‘یہ ایک ایسا جملہ ہے جس پہ کوئی اعتبار نہیں کرے گا کیونکہ سمندر خشک نہیں ہوتا ۔ہو اکا چلنا بند نہیں ہوتا ۔۔پہاڑ اپنی جگہ سے غائب نہیں ہوتا ۔۔پھول بغیر خوشبو کے نہیں ہوتا ۔دنیا سے محبت کا وجود ختم نہیں ہوتا ۔۔وفا اپنی موت نہیں مرتی ۔۔مسکراہٹیں کبھی ناپائید نہیں ہوتیں ۔خلوص مرتا نہیں ۔الفاظ اپنی طاقت کھوتے نہیں ۔۔اگر یوں سب کچھ ہے تو شاکرین استاد بھی پنشن نہیں لیتا ۔۔شاکرین استاد واقعی میں استاد ہے۔۔اس کے ساتھ دوستی کے علاوہ سٹاف میں رہنے کا بھی شرف حاصل رہا ۔۔اس سے تعارف سے پہلے ایک نہایت وجیہ صورت انسان کو راہ چلتے دیکھتا ۔۔د ل پہ ہوک سا اُٹھتا کہ یہ بندہ خدا کون ہے جو واقعی نمایان ہے ۔۔لمبا تڑنگا ۔۔چہرہ چاند جیسا ۔چھوٹی داڑھی ۔۔ساتواں ناک ۔سرمگین آنکھیں ۔چمکتی پیشانی ۔چھریرا بدن ۔لمبوترا قد مگر سرو ۔دیکھ کے غالب یاد آجائے اور اس کا محبوب بھی ۔۔
تیرے سرو قد سے ایک قد آدم
قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں
شاکرین اصل میں غلام شاکرین ہیں ۔۔آج سے ساٹھ سال پہلے اوچوشٹ چترال میں چارویلوعرب خان کے ہاں آپ کی پیدائش ہوئی ۔۔خاندان متمول کھاتا پیتا ۔۔زمانہ عسرت کا تھا ۔۔لوگ کھانے تک کو ترستے تھے ۔۔غلام شاکرین اس دور غربت میں بھی خوش قسمت تھا کہ نازوں میں پلا ۔۔غم دنیا کوئی نہیں ۔۔ہائی سکول چترال سے تعلیم حاصل کی پھر کراچی سدھارے ۔۔وہاں سے تعلیم مکمل کی اور معلمی کا پیشہ اختیار کیا ۔۔وہ معلمی کو عبادت سمجھتے ہیں اس لئے کہا کرتے ہیں کہ استاد بنتے ہی میں اپنی پوری زندگی سے ڈرنے لگا ۔۔میں معاشرے کا قیدی بن گیا ۔۔میری ساری آزادیاں مٹ گئیں ۔۔سر مستیاں اختتام پذیر ہوئیں ۔۔اور میں اپنے آپ کو تہذیب کے سانچے اور معیار انسانیت کے ترازو میں پایا ۔۔غلام شاکرین کو اپنے شاگردوں سے بے پناہ عقیدت تھی ۔۔ان کی ہر لحاظ سے مدد کرتے ۔۔ان کی ضروریات کا پتہ لگاتے ۔۔ان کا احترام کرتے ۔ان کے لئے نیک خواہشات رکھتے ۔۔وہ شاگرد کو اپنی دنیاسمجھتے ۔چھپکے سے ان کی اغانت کرتے ۔۔ہر میدان میں ان کی حوصلہ افزائی کرتے ۔۔کھیلوں کے میدانوں سے لے کر پڑھائی تک ان کی ہر مشکل میں ان کے ساتھ ہوتے ۔۔وہ نہایت صاف دل اور بھروسہ والا انسان ہے ۔کہا کرتے ہیں کہ اللہ سب کچھ درست کرے گا ۔۔اورسب کچھ اس کی خواہش کے مطابق درست ہو تا ۔۔شاکرین حقیقت پسند واقع ہوئے ہیں۔اس کو قول سدید اور کار شفا ف پہ یقین ہے اس لئے کبھی نہ کسی کو دھوکادیا نہ خود فریب کھایا ۔۔وہ وقت کا پابند تھا اور کام شوق سے کرتا ۔۔کبھی سکول سے اور کلاس سے غیر حاضر نہ رہتا ۔۔وہ رزق حلال کو سب کچھ سمجھتا ۔۔غلام شاکرین بذلا سنج واقع ہوا ہے اکثر اس کے الفاظ ابتذال کا لبادہ پہنتے ہیں مگر سننے والے کے پیٹ میں ہنسی سے بل پڑ جاتے ہیں ۔۔اس کا ایک ائیڈئل خاندان ہے اس نے اپنے بچوں کی پرورش روائتی خاندانی انداز میں کی ہے ۔شرافت ان کی پہچان ہے ۔۔ان کو اپنے بچوں سے بہت پیار ہے ۔ان کی تعلیم و تربیت اعلی انداز میں کی ہے ۔۔شریک حیات کا بے حد احترام کرتے ہیں ۔وہ اپنے گھر کو جنت کہتے ہیں ان کی زندگی میں غم کا کبھی دخل نہیں رہا ۔۔بے سکونی کبھی نہیں آئی ۔۔وہ کٹر مذہبی ہیں ۔۔وہ اسلام کے پکے شیدائی ہیں ۔۔جماعت اسلامی کے کارکن رہے ہیں ۔۔تنظیم اساتذہ کے رکن رہے ہیں ۔۔بے لاناغہ اجتماعات میں جاتے ہیں ۔۔غلام شاکرین مہمان نواز ،غریب پرور ، حق کی خاموش داغی ،دریا دل ،سخاوت کے دھنی اور توکل کے پتلے ہیں ۔۔محفلوں کی زینت ہوا کرتے ہیں حلقہ احباب کم مگر چنے ہوئے ہوتے ہیں ۔۔نازک مزاج ضرور ہیں مگر رنگینی مزاج کی خوشبو ہے ۔۔لباس پوشاک کا خاص خیال رکھتے ہیں ۔۔خوش لباس اور خوش خوراک ہیں ۔۔دسترخواں بڑا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔خاندانی روایات کا بڑا پاس لحاظ رکھتے ہیں ۔۔یادوں کی کتاب میں بچپن نمایان ہے ۔۔ماضی یاد کرکے حال کی رنگینیوں کے ساتھ شکر کرتے ہیں ۔۔زندگی کی بوقلمونیوں سے واقف ہیں ۔عشرت عسرت دونوں کا تجربہ رہا ہے ۔۔شاکرین ہردلعزیز شخصیت ہیں اس لئے ان کی موجودگی ہر محفل میں خوشبو کی طرح ہوتی ہے ۔۔اس کی موجودگی کو محسوس کیا جاتا ہے اس لئے اس کی ریٹائر منٹ پر اعتبار نہیں ہوتا کہ اتنی سدا بہارشخص ریٹائرڈ کس طرح ہوسکتا ہے ۔۔استاد ویسے بھی ریٹائرڈ نہیں ہوتا ۔۔۔قاسمی نے کیا خوب کہا تھا
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤنگا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اُتر جاؤنگا
شاکرین خود سمندر ہیں کہ دریا اس میں اُترتے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔