تلخ حقیقت

….. ناصر علی سابقہ صدر چترال نرسس ایسوسی ایشن  ……..

کچھ ہفتے قبل صوبائی نرسنگ قیادت کی طرف سے نرسس کے جائز مطالبات کو لیکر پرامن احتجاج کیا گیا تھاـ احتجاج کی وجہ صوبائی حکومت کی لاپرواہی اور بدنیتی کی وجہ سے ہوئی-صوبائی نرسنگ ایسوسی ایش کے صدر کی قیادت میں جو کہ ایماندار، تعلیم یافتہ،والنٹئراور پیشے کے ساتھ مخلص بندہ ہےمتعدد بار سیکٹری ہیلتھ اور ہیلتھ منسٹر سے ملاقاتوں کے بعد سمری بنائی گئی مگر وزیراعلی کی ھٹ دھرمی کی وجہ سے سمری پاس نہ ہو سکا۔ایسی حالت میں ا حتجاج کےعلاوہ کوئی دوسرااپشںن نہ تھا-ایک خاص وقت کو دیکھتے ہوئے تمام ہسپتالوں میں احتجاج کی کال دی گئی-اٹھ روز تک ضلعی اورتحصیل ہیڈ کواٹر ہسپتالوں میں احتجاج ریکارڈ کرایا گیا،اسی دوران مریضوں کوعلاج معالجےمیں دشواری پیش آئی مگر صوبائی حکومت کا مریضوں کےاس تکلیف کا کچھ خیال نہ آیا اور آنکھیں بند کرکے بیٹھ گئے-ہسپتالوں میں اپنا احتجاج ریکارڈکرانے کے بعد 18 اپریل بروز بدھ کو پشاور ہائی کورٹ کے سامنے شاندار جلسہ کیا گیا-جسمیں تمام ضلعی اور تحصیل ہیڈکواٹر ہسپتالوں سے نرسس نے شرکت کی-پشاور کے ہسپتالوں سے نرسس کو جلسے میں شرکت کیلئے آنے میں کسی نہ کسی وجہ سے دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ ایبٹ آباد کے بہادر سول اور ایم ٹی آئی نرسس جس جذبے اور جوش کے ساتھ جلسے میں شرکت کیا ان کو سلام پیش کرتا ہوں-اس جلسے کے بعد ایسوسی ایشن اور حکومتی نمائندوں کی بٹھک ہوئی- بعد ازاں پروپوزل ڈی جی ہیلتھ سے پاس کراکے متعلقہ اداروں کو ارسال کیا گیا- ہیلتھ منسٹر سے بات آگے نہیں بڑھ رہی کیونکہ ہمارے محترم وزیراعلٰی کے پاس انہی کے صوبے کے نرسس کو سننے کے لیے وقت نہیں- چیف جسٹس اف پاکستاں سے بھی ڈسٹرکٹ پشاور کے صدر امبرین نے ملاقات کی، تاحال اس کا بھی کوئی رزلٹ ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔ اگرچہ اس جلسے میں تمام نرسس نے ساتھ دے دیامگر پشاور کے ہسپتالوں میں نرسس بہت کم تعداد میں باہر آئے،کیونکہ ان کو روکا گیا تھا،ان کو روکنے والا کوئی سیاسی بندہ نہیں بلکہ نرسس ہی تھے۔ان لوگوں نے اپنی انا کو سامنے رکھ کر تمام نرسس کے مستقبل کو داؤ پہ لگا دئیے۔ ہمیں اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی کم تھا۔ آج کل یہی سوچ پروان چڑھ رہا ہے کہ ایسوسی ایشن بناؤ اور فائدہ اٹھاؤ۔ایک معزز پیشے کو سیاست کے نزر کیا جارہا ہے۔اس کا زمہ دار وہی لوگ ہیں جو اچھے عہدوں پر بیٹھے ہیں ۔جس طرح پہلے آرٹیکل کی وجہ سے کچھ ایشوز کا سامنا رہا، پتہ ہے اس بار بھی ہوگا مگر میں صاف باتیں کرتا رہونگا۔ اس بات کا سب کو علم ہے کہ احتجاج ایم ٹی آئی اور سول نرسس کے بہتر مستقبل کے لیے تھا مگر ینگ نرسس ایسوسی ایشن کی طرف سے سول نرسس کا ساتھ نہیں دیا گیا۔اختلاف رائے رکھنا کوئی بری بات نہیں مگر اختلاف کی آڑ میں نفرت پیدا کرنا نا انصافی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر احتجاج کرنا ہی تھا تو صوبائی نرسنگ قیادت کا ساتھ کیوں نہیں دیا گیا؟ کیا آپ لوگوں کا احتجاج ، پریس کانفرنس صوبائی نرسنگ قیادت کو نیچے دیکھانے کے لئے تھا؟ یا ان لوگوں کو یہ بتانا تھا کہ سول اور ایم ٹی آئی نرسس الگ الگ ہیں؟ کیا نرسنگ جیسے معزز پیشے میں ایسی دراڑیں پیدا کرنا بد نیتی نہیں؟ جلسے سے پہلے ان لوگوں کو منانے کی کوشش کی گئی ، نرسس کے مستقبل کی بات کی گئی،نرسس کے فائدے کے لیے ایک ہونے کا کہا گیا مگر نہیں الیکش والی بات کو جواز بنا کر ساتھ نہیں دیا گیا۔نرسس کو تقسیم کرنے والے لوگوں کی وجہ سے ہم ناکامی کا شکار ہو گئے۔ابھی آپ لوگوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ان لوگوں نے پیشے کیساتھ اور ہمارے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ نہیں کئے؟ میرا اپنی تمام معزز نرسنگ آفیسرز سے گزارش ہے کہ آپ لوگ آنکھیں کھولےاور دیکھیں کیا یہ سیاست نہیں؟ اپنے پیشے کو بچائے اپنا مستقبل بنائے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔