روزے کے تقاضے

روزہ صرف کھانے پینے پرقدغن لگانے کا نام نہیں بلکہ اس کا دائرہ پو رے وجود تک پھیلا ہوتا ہے ۔ بدن کے ہر اعضا ء سے سرزدہونے والی نا فرمانیوں اور خلاف شرع کاموں سے اجتناب یہاں تک کہ دل کی کیفیات کو صاف اور شفاف رکھنے سے روزے کے تقاضے پو رے ہو سکتے ہیں ۔ جہاں غیر اخلاقی با توں کے سننے اور کہنے ، نظروں کے ناروا استعمال ہا تھ پاؤں کی بے راہر وی اور زبان کی آلودگی کا خیال رکھنا ضروری ہے وہاں فاسد خیالات ، بدخواہی اور ہر قسم کی منفی تصورات کو بھی دل کے قریب پھٹکنے نہ دنیا روزے کی روح کی سلامتی کا آئینہ دار ہے ۔ چونکہ روزہ غربت اور افلاس کی کیفیت سے آگاہی اور اس بنیاد پر دوسروں کی غمخواری کے فلسفے اور خدا اور بندے کے درمیان براہ راست تعلق کی حیثیت کا حامل عمل ہے اس لئے معا ملات کو اس ضابطے کے مطابق انجا م دینے کی اہمیت مسلمہ ہے ۔ کسی روزہ دار کی افطاری کا اہتمام کر نے سے روزے کے برابر ثواب ملنے کا اسلامی تصور یقینی طور پر اس امر کا متقاضی ہے کہ کاروبار کے دوران بھی جا ئز اور نا جائز منافع خوری کا خیال رکھتے ہو ئے خر یداروں کی دسترس کو یقینی بنا یا جا ئے اور روزہ داروں کی ضروریات سے نا جائز فائدہ اُٹھانے سے اجتناب کیا جا ئے ۔ بصورت دیگر دنیاوی لحاظ سے کامیابی کا رنگ نظر آئے گا ۔ مگراخروی اعتبار سے روزے کے فیوض و بر کات سے خاطر خواہ استفادے کی صورت نہیں بن سکتی ۔ اس سلسلے میں انتظامیہ کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ خصوصاًرمضان کے مقدس مہینے میں اشیائے ضرورت کی قیمتوں پر کڑی نظر رکھنے کے سلسلے میں کسی قسم کی رو رعایت اور عرض وغایت کو فرض کی ادائیگی میں ما نع ہو نے نہ دے تاکہ خدا نا تر س اور دنیا پر ست افراد عوام کے گلے پر کند چھری چلا نے جیسے قبیح فعل کے ارتکاب کی جرات نہ کر سکیں ۔
اگر چہ بحیثیت مسلمان ہمیں خود رمضان کے مقدس مہینے کی حرمت اور تقدس کا خیال رکھتے ہو ئے بند گان خدا سے خصوصی محبت کے مذہبی تقاضے کی بر آوری کیلئے خود میں تڑپ پیدا کر نا ہے اور اس سلسلے میں کسی کی نگاہدار ی اور انتباہ کی ضرورت نہیں مگر بد قسمتی سے ما دہ پر ستی کے چنگل میں ایسے پھنسے ہو ئے ہیں کہ دینی تقاضوں اور خدا کی رضا جوئی کے تخیلات سے ازہان کے نہان خانے خالی ہوچکے ہیں۔ اور اغیار کی اپنی مذہبی اہمیت کے حامل ایام کے دوران بندگان خدا کی خیر خواہی کے جذبے کو دیکھ کر بھی شرمسار نہیں ہوتے اور ہماری دینی غیرت انگڑائی تک نہیں لیتی۔ یوں رضائے الہی کے حصول کی خوش بختی سے سرفراز ہونے کے لئے روزے کی بنیادی فلسفے کے رنگ میں خود کو رنگین کرنے کی صورت میں افطار کے وقت دعا کے لئے اُٹھنے والے ہاتھ انعام اکرام خداوندی سے مستفید ہونگے۔ بصورت دیگر اگر رسمی طو رپر روزے کے مقدس مہینے کو بوجھ سمجھ کر اور تراویخ کے لئے تیز نماز پڑھنے والے امام کے متلاشی ہوکر اپنایا جائے تو سوائے بھوک اور پیاس کی کیفیت سے دوچار ہونے کے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ کیونکہ جس عمل میں حکم خداوندی کی بجا آوری کا جذبہ اور شوق شامل نہ ہوتو وہ عمل “مچوڑیو خسمت انگار تو زوحچ “کے مترادف ہوگا۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔