سماجی ترقی کے اداروں کی باہمی رابطہ کاری قسط : 2

…….محکم الدین ایونی…..

اینوائرنمنٹل پروٹیکشن سوسائٹی ( EPS) سوات میں معروف این جی او ہے جو گذشتہ بیس سالوں سے سوات میں ماحولیاتی مسائل کے ساتھ ساتھ دیگر کئی شعبوں میں خد مات انجام دے رہاہے ۔ ڈاکٹر عبد الوہاب اس کے چیرمین ہیں ۔ جبکہ اکبر زیب اس کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہیں ۔یہ ادارہ حال ہی میں چترال میں سی ڈی ایل ڈی کے سو شل موبلائزیشن کے شعبے میں کام کرنے کیلئے چترال کے دیگر این جی اوز ایس آر ایس پی اور اے کے آر ایس پی کے مقابلے میں کم بولی دے کر کامیابی حاصل کی ہے ۔ جس کے ساتھ چترال کمیونٹی ڈویلپمنٹ نیٹ ورک ( CCDN) ایک دستاویز کے ذریعے پارٹنر آرگنائزیشن کے طور پر کام کرنے کا معاہدہ کر چکا ہے ۔ اے وی ڈی پی کی ٹیم کو EPSکے آفس جانے اور اُن سے ترقیاتی کاموں سے متعلق اُن کے تجربات سننے کا موقع ملا ۔ ادارے کے ڈائریکٹر اور ایم این ای آفیسر سے تفصیلی گفت و شید ہوئی اور اُن کی طر ف سے پریزنٹیشن دی گئی ، اس ادارے نے سوات کے مختلف علاقوں میں ماحول سے متعلق آگہی پھیلانے ، اور عملی طور پر شجر کاری کے ذریعے ماحولیاتی مسائل پر قابو پانے کی بھر پور کوشش کی ہے ۔ اور ماحول کو بہتر بنانے میں اہم کر دار ادا کیا ہے ۔ جبکہ انفراسٹرکچر کے منصوبے، صاف پانی ، تعلیم و صحت کی سہولیات کی فراہمی اور خواتین کی بہبود کیلئے اقدامات اس کے علاوہ ہیں ۔ پاکستان غربت مکاؤ فنڈ کے شعبہ پی پی آر کے زیر انتظام علیگرامہ کے مقام پر نوے سحر پبلک سکول کا قیام ای پی ایس کی بہت بڑی کوشش ہے ۔ جس میں بچوں اور بچیوں کو معیاری تعلیم دی جارہی ہے ۔ جبکہ شریف آباد کے مقام پر ہیلتھ سنٹر کا قیام علاقے کی خواتین کو ا یمر جنسی بنیادوں پر طبی امداد فراہم کرنے کے حوالے سے قابل تعریف کاوش ہے ۔ جس میں ہمہ وقت ایل ایچ ویز کی سہولت خواتین کو حاصل ہیں ۔ ای پی ایس کے زیر نگرانی لنک روڈ ز کی تعمیر و مرمت اور پختگی کے بھی کئی کام ہوئے ہیں ۔ جن میں سے گاؤں ہزارہ کے لنک روڈ کی پختگی سر فہرست ہے ۔EPS کی طرف سے پریزنٹیشن کے دوران اکبر زیب نے کہا ۔ کہ اُن کاا دارہ اپنے سابقہ تجربات کی بنیاد پر دوسرے این جی اوز سے بڑھ کر چترال میں کام کرنے کی اہلیت رکھتی ہے ۔ لیکن کچھ ادرے اس راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ مگر قانونی طور پر وہ یہ جنگ نہیں جیت سکتے ۔ کیونکہ اس حوالے سے تمام کام قواعد وضوابط کے تحت ہوئے ہیں ۔ جس میں وہ مد مقابل اداروں سے بولی میں اچھی پوزیشن لے چکے ہیں ۔ اور یہ اُن کا حق بنتا ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ چترال میں سی سی ڈی این کے ذیلی لوکل سپورٹ آرگنایزیشنز کا ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے ۔ اور چیرمین سی سی ڈی این سرتاج احمد خان کی زیر قیادت یہ ادارے سماجی ترقی کے کاموں میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سی سی ڈی این اور ای پی ایس کے کنسورشیم کے بارے میں ڈپٹی کمشنر چترال کے آفس میں پریزنٹیشن دی گئی تھی ۔ ڈی سی چترال نے اسے انتہائی طور پر سراہا تھا ۔ اور یہی ہمارے ادارے کے لئے پوائنٹس لینے کا سبب بنا ۔ اکبر زیب نے ایون اینڈ ویلیز ڈویلپمنٹ پروگرام کی طرف سے یونین کونسل ایون کے عوام کیلئے کئے جانے والے اقدامات کو سراہا ۔ کہ اے وی ڈی پی چترال میں ایک معروف لوکل سپورٹ آرگنائزیشن ہے ۔ جو مسلم اور کالاش کمیونٹی دونوں کی فلاح و بہبود کیلئے گذشتہ ڈیڑھ عشرے سے خد مات انجام دے رہا ہے ۔ اور چترال سے باہر سماجی ادارے اس کی کارکردگی کی تعریف کرنے پر مجبور ہیں ۔ ٹیم نے پی پی آر پراجیکٹ کے تحت دونوں اداروں کی باہمی رابطہ کاری کو ممکن بنانے پر پاکستان غربت مکاؤ فنڈ اور اے کے آر ایس پی کا شکریہ ا دا کیا ۔ بعد آزان اے وی ڈی پی کی ٹیم نے چترال میں سیاحت کو فروغ دینے کے سلسلے میں تجربات اور آگہی حاصل کرنے کیلئے سوات کے پُر فضا مقامات مدین ، بحرین ، کالام اور مہو ڈنڈ جھیل کی سیر کی ۔ اورحاصل ہونے والی معلو مات سے چترال کے سیاحتی مقامات بمبوریت ، بریر، رومبور میں نیچر اور کلچر سے آمدنی حاصل کرنے اور علاقے میں بے روز گاری میں کمی لانے کے حوالے سے پی پی آر پراجیکٹ کے تحت اقدامات اُٹھانے کے عزم کا اظہار کیا ۔ ٹیم نے کالام کے مقام اُشو مٹلتان میں رہائش پذیر چترالی کمیونٹی کے عمائدین اور سابق ناظم فریداللہ سے ملاقات کی ۔ جو کہ کئی پُشتوں کے باوجود کھوار زبان و ادب کو سینے سے لگائے رکھا ہے ۔ تاہم تعلیمی پسماندگی اس علاقے میں بدرجہ اتم موجود ہے ۔ خصوصاً بچیوں کی تعلیم یہاں نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ٹیم کا چھ روزہ دورہ یکم جولائی کو مکمل ہوا ۔ اے وی ڈی پی کی ٹیم میں وائس چیر مین ظہیر الدین کے علاوہ بورڈ ممبران ، سلطان خان ، عنایت اللہ ، اُنت بیگ ، حیات خان ، اسرار احمد ، سوشل آرگنائزر جاوید احمد ، نجمہ سحر اکاؤنٹنٹ فضل امین ، اظہار احمد ، راقم اور چھ خواتین ممبران شامل تھیں ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔