شرم و حیا والی ٹوپی

’’ ٹوپی پہنانا‘‘ اردو محاروہ ہے مطلب بے وقوف بنانا ہوتا ہے آپ اس سے یہ مطلب بھی لے سکتے ہیں کہ جو وعدہ کیا جارہا ہے اس پر عمل درآمد کے کوئی چانس نہیں ہیں۔ غالباً اس محاورے کے زیر اثر ہمارے سیاسی لوگ ذاتی پارٹی میں شامل ہونے والوں کو ٹوپی پہنا رہے ہوتے ہیں۔ اچھے زمانوں میں لوگ ٹوپی پہنانے کو برا فعل تصور کرتے تھے بحالت مجبوری کسی کو ٹوپی پہنانا بھی پڑے تو انتہائی راز داری برتی جاتی تھی ۔ زمانہ اب کتنا بدل گیا ہے کہ اب ٹوپی پہنانے کے لئے باقاعدہ تقریب منعقد کی جاتی ہے اور تقریب کو پورے ملک میں دیکھانے کے لئے میڈیا کو دعوت دی جاتی ہے باقاعدہ فوٹیج بنتی ہے اور پورے ملک کی میڈیا کے ذریعے لوگوں کو دیکھایا بھی جاتا ہے کہ اب تک اس بندے کو دوسری پارٹی والے ٹوپی پہنا رہے تھے آئندہ ان کو صرف ہم ٹوپی پہنائیں گے۔ اس میں حیرت انگیز بات یہی ہے کہ جس کو ٹوپی پہنائی جارہی ہے وہ اوران کا پورا خاندان اور حلقہ یاران اس بات پر شادیانے بجا رہے ہوتے ہیں کہ اب ہمارے بھائی یا بہن کو نئے لوگ ٹوپی پہنائیں گے۔بلکہ نئے لوگ ٹوپی پہناچکے ہیں۔ یعنی اب ایک عرصے تک ہم ان کے ہاتھوں بے وقوف بنیں گے۔
کمال یہ بھی ہے کہ جو لوگ ہر انتخابات کے موسم میں نئی پارٹیوں کے ٹوپی پہن لیتے ہیں ان سے کوئی یہ پوچھنے کو تیار نہیں ہے کہ آج تک آپ جس گروہ کے ساتھ منسلک تھے اس کے لئے آپ نے کونسا تیر مارا جو اس نئی گرو ہ میں شامل ہو کر چاند تارے توڑ لائیں گے۔ یہ بھی کہ روز روز نئی ٹوپیاں پہن کر آپ کو شرم نہیں آتی۔ آج آپ جس کے نام کا مالا جاپ رہے ہیں کل تو آپ کہہ رہے تھے کہ یہ پارٹی ، گروہ یا جو آج آپ کو ٹوپی پہنا رہا ہے وہ دنیا کا نہیں تو کم از کم پاکستان کا سب سے کرپٹ ترین آدمی ہے۔ پھر راتوں رات وہ دودھ کا دھلا کیسے ہوگیا۔ آخر آپ نے اتنی جلدی اس گروہ کی کیسے جانچ پڑتال کرلی کہ آج آپ ان کے نام ایمانداری کی سند جاری کرتے ہوئے بلکہ جس مجمع کے سامنے کھڑے ہو کر ان کی کرپشن بیان کرتے تھے ان کے سامنے آج ان کے قصیدے پڑھ رہے ہیں۔ جن لوگوں کے سامنے آپ ایک بندے ، ایک گروہ اور ایک پارٹی کی برائیاں بیان کرتے تھے بلکہ ثبوت تک پیش کرچکے ہیں۔ آج انہی لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر آپ اسی کرپٹ ترین آدمی کی تعریف کیسے کرسکتے ہیں۔حیرت اس بات پر بھی ہے کہ جو شخص ایک پارٹی میں شامل تمام افراد کو کئی سالوں سے ضمیر فروش ثابت کرنے کے لئے جان کی بازی لگا چکا ہوتا ہے وہ جب اس پارٹی میں شامل ہونے کے لئے تیار ہوتا ہے تو ان کے تمام عیوب معاف کردیئے جاتے ہیں۔ حیرت کا مقام نہیں؟ آپ اس شخص کی اپنی شان میں کئے گئے عزت افزائی کو کیسے بھول سکتے ہیں۔کوئی ضمیر نام کی چیز کہیں پائی جاتی ہے آپ کے اردگرد۔ شرم و حیا جیسے الفاظ سے نابلد ہیں آپ؟۔
عوام کی میموری اور میڈیا کے میموری کارڈز میں آپ دونوں کے کہے جملے اب ہمیشہ کے لئے محفوظ کئے جاتے ہیں آپ دونوں جب ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں اور ایسی کوئی کلپ چل جائے جس میں آپ دونوں گزشتہ ہمدردیوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کی عزت افزائی کررہے ہوتے ہیں ۔ تو کبھی ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھنے کی ہمت ہوتی ہے؟۔ پورے خاندان کو لے کر آپ جس بندے کے پیچھے پاگلوں کی طرح بھاگ رہے تھے آج اپنے اس محسن اور دنیا کے سب سے دیانت دار آدمی کے دئے گئے ٹوپی کی بجائے نئی ٹوپی پہن کر جب گھر جائیں گے بلکہ آج کل پارٹی والے اپنی اپنی پارٹی کے گلوبند تک بناچکے ہیں۔ یہ نیا گلوبند پہن کر جب آپ گھر جائیں گے تو بیوی بچے کیا بولیں گے یہ بھی کبھی نہیں سوچا؟۔ یا پھر پورا خاندان آپ کی طرح کوئی بھی ٹوپی اور کسی کا بھی گلوبند پہننے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا؟۔ ویسے ایک سوال اور بھی ہے کہ آپ سب ٹوپی والے لوگ کبھی کچھ کام بھی کریں گے یا صرف ٹوپیاں پہننے اور اتارنے پر ہی گزارا کریں گے۔ سوال یہ بھی ہے کہ آپ کی نئی ٹوپی سے عام آدمی کو کیا فائدہ پہنچے گا یا کسی گروہ کے سربراہ یا نمائندے نے اگر لالچ دے کر دو چار افراد کو اپنے گروہ میں شامل کرلیا تو اس سے عام آدمی کی زندگی میں کونسی تبدیلی آسکتی ہے۔ آپ سب عام آدمی کے ساتھ یہ ٹوپی ڈرامہ ہی کھیلتے رہیں گے یا کبھی ہمیں اس بات پر بھی مجبور کریں گے کہ ہم آپ کو ٹوپی اور گلوبندکے بجائے کارکردگی کی بنیاد پر بھی ووٹ دیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔