کجوکا اہم سیاسی شخصیت “صدرمحراب خان”

گاؤں کے اکابرین ہمارے عظیم سرمایہ ہیں۔ گاؤں کے وہ عظیم شخصیات جو ہم سے بچھڑ چکے ہیں۔یا اب بھی اپنے چہرے پر سفید با رعب داڑھی ، ہاتھ میں بڑھاپے کی چھڑی اور انکھوں میں نظر کی عینک لئے ہمارے درمیاں موجود ہیں۔ان میں سے ہر ایک ہمارے لئے تاریخ سے کم نہیں۔ اپنی تحریر کے زریغے ان سے وابستہ تاریخ کو منظر عام پر لانے کے لئے قلم کاغذ اٹھاکر نئی نسل کے سامنے لانا اور موجودہ نوجوانوں کے دلوں میں ان کی عزت بٹھانا گاؤں کی تعلیم یافتہ افراد کی ذمہ داری ہے۔تاکہ ان اہم سیاسی اور سماجی شخصیات کی قرض آدا ہو سکے۔ ان قابل قدر حضرات کے ساتھ کوئی نہ کوئی ایسی تاریخ جھڑی ہوئی ہے۔جن کو انتہائی عقیدت اور حقیقت سے سپرد قلم کرکے ان کے کارناموں کو یاد اور ان کے ناموں کو زندرہ رکھا جا سکتا ہے۔جو ہم کو کرنا چاہیے۔ ۔ گاؤں کجو بالا بھی تقریبا تین سو گھرانوں پر مشتمل ہے۔ مذکورہ گاؤں سے ایسے تاریخی افراد ہم سے بچھڑ گئے ۔یا ہم میں اب بھی موجود ہیں۔جوہمارے لئے کسی قیمتی خزانے سے کم نہیں۔ہمیں ان کے کارناموں کو اجاگر کرنے اوران کی یادوں کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ان میں تحصیلدار سفید خان مرحوم ، صوبیدار لغل خان،با با آل الرحمان،حوالدار تفاگل شاہ ،حوالدار وزیر خان،صوبیدار انوربیگ، صوبیدار امیر حمزہ ، استاد عبدالمالک،حاجی محراب جی،کمانڈر محد دین وغیرہ ( مرحومین ) شامل ہیں۔انشاء اللہ ان سب کے حالات زندگی اوران سے وابستہ تاریخ کو تحریری طور پر منظر عام پر لانے کی کوشش کی جائے گی۔ساتھ ہی ہمارے کئی تاریخی بزرگ اب بھی ہمارے درمیاں بڑھاپے کی عمر میں اپنے عظیم شخصیت کے ساتھ موجود ہیں۔جن کو دیکھتے ہی انکھیں ادب سے جھک جاتی ہیں۔ اور زبان حال سے بے ساختہ ان کے لئے دعائیں نکلتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مذکورہ مرحومین کو جنت الفردوس اور حاضرین کو عمر نوح نصیب فرمائے۔

آج میں جس شخصیت کے بارے میں لکھنے کی جسار ت کرتا ہوں وہ ہے کجو کا جانا پہچانا سیاسی اور سماجی شخصیت محترم محراب خان ماما، جو کجو کے بائیکے برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ کجوکی سیاسی تاریخ میں ایک ناقابل فراموش حقیقت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ آپ کجو میں سب سے پہلے سیاسی شخصیت ہیں۔ جو اپنے سیاسی وقار با رعب شخصیت اور منطقی باتوں کے ساتھ زندگی کے پچھاسیواں بہاروں کے قریب سے گزر رہے ہیں۔اب بھی ان کی ہمت جوان اور حو صلہ پہاڑوں سے اونچاہے۔ جس کے ساتھ بیٹھ کر سیاسی معلومات حاصل کرنے اور ان کے انوکھے لفظی اشاروں کا مزہ لینے کی ہر ایک کو تمنا رہتی ہے ۔صدر ماما جب گزشتہ اور موجودہ سیاسی حالات بیان کرنے لگ جائیں۔تو وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا۔لیکن اس کے زبان سے نکلے ہوئے لفظوں کا سمجھناہر ایک کی بس کی بات نہیں۔اس کے بولے ہوئے ہر لفظ میں وزن ہوتی ہے۔اور ایک لفظ سے سینکٹروں مطلب نکلتے ہیں۔اس کے زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ کے لئے انسان سوچنے پر مجبور ہوتا ہے۔ ارض پاک کے معرض وجودمیں آتے وقت آپ کی عمر تقریبا پندرہ سے سولہ سالوں کی درمیاں ہو گی۔ جو تحریک آزادی کے آخری سالوں کو دیکھنے والے خوش نصیبوں میں شامل ہیں۔1966سے 1971تک آپ پشاور میں رہے۔واپسی پر پاکستان پیپلر پارٹی میں شمولیت اختیار کر کے اپنے عملی سیاست کا آغاز کیا۔صوبائی وزیر بلدیات جناب قادر نواز (مرحوم)کئی دوسرے صوبائی اور ضلعی قائدین کے ساتھ آپ کے گھر تشریف لاکر پرچم کشائی کی۔اس وقت ما ما محراب خان نے بیل ذبح کرکے تمام گاؤں کو کھانا کھلایا۔یوں آپ کجو کے پہلے سیاسی شخصیت کے طور پر سامنے آگئے۔اور صدر کے نام سے مشہور ہوئے۔اگرچہ آپ ایک غیر تعلیم یافتہ یعنی ناخواندہ شخصیت ہیں۔لیکن سیاسی عمل اور سیاسی باریکات میں بڑے بڑوں سے آگے ہیں۔چترال کے بڑے بڑے سیا سی شخصیات آپ کو اپنے ہم خیال بنانے کے لئے اسے ملاقات کرتے رہتے ہیں۔لیکن آپ اپنے سیاسی بصیرت اور پچاس سالہ سیاسی تجربے سے سب کو خوش کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔آپ اپنے ابتدائی سیاسی دنوں میں دو مرتبہ یونین کونسل کے ممبر رہ چکے ہیں۔اور PPPحکومت کی طرف سے علاقے کے نگران اور علاقائی چئرمین ذکواۃ بھی رہ چکے ہیں۔1983کے بعد آپ شہزادہ محی الدین صاحب کی دعوت پر اس کے ساتھ شامل ہو گئے۔ اس وقت ہم کالج میں پڑھ رہے تھے۔جب شہزادہ محی الدین صاحب نے آپ کے گھر تشریف لا کر پرچم کشائی کی۔یوں صدر محراب خان ماما شہزادہ صاحب کے ہم خیال بن گئے۔ہر الیکشن میں شہزادہ صاحب کو اپنے علاقے میں بھاری اکثریت سے جیت کراتے رہے۔ اور 2008کی الیکشن تک شہزادہ محی الدین صاحب کے سپوٹر رہے۔
اب بھی ماما صدر محراب خان علاقے میں ایک جانے پہچانے سیاسی شخصیت کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔اور الیکشن کے دنوں ہر پارٹی کے امیدوار اسے ملاقات کے لئے تشریف لاتے رہتے ہیں۔دعا ہے۔کہ پروردگار عالم ماما محراب خان کو عمر دراز عطا فرماکر اس کا سایہ ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے۔آمین۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔