کیا خان سر کار واقعی میں تبدیلی لا سکتے ہیں

مراسلہ نگار کے ساتھ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔۔                                                                                                                           

……….۔…… تحریر: نورالھدیٰ یفتالی

2018 کے الیکشن صاف طور پر مرکز میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سازی دکھائی دے رہا ہے۔مختلف ادارو ں کی سروے اور پنجاب کی موجودہ سیاسی نفسانفسی اور پنجاب ہی سے سابق حکمران جماعت کے بڑے بڑے ناموں کا انصاف کے کاروان میں شامل ہوناکیا محض اتفاق ہے یا تبدیلی کی ہوا چلی ہے یا خلائی مخلوق کی دم دعا کا نتیجہ ہے۔ایک طرف پاکستان تحریک انصاف کا مشن ہے کہ تحریک انصاف اپنے نام کے مناسبت سے انصاف کے اہم اصولوں پر استوار ہے۔تحریک انصاف اس بات کا دعوا کرتا ہے کہ برسر اقتدار آ کر ملک میں ناانصافی،بے روزگاری،کرپشن،کا خاتمہ کریں گے۔ملک کے تمام شعبوں میں صحت سے لے کر تعلیم ،سیاحت سے لے کر تجارت تک ہر شہری کے لیے یکساں مواقع میسر ہو نگے۔
ُپاکستان تحریک انصاف کا ایک عام پاکستانی کی جماعت ہے۔جو اہلیت اور مطابقت کے اصولوں پر یقین رکھتی ہے۔پی ٹی آئی اس بات پر زور دیتا ہے کہ غیر موثر ریاستی ڈھانچے نے حکمرانی کے بحراں کو جنم دیا ہے۔جس کی وجہ سے امیر طبقہ امیر سے امیر ہوتا آ رہا ہے اور غریب معاشرے میں بوجھ بنتاجا رہا ہے اگر دیکھا جائے ٹکٹوں کی تقسیم سے پی ٹی آئی کو کافی پر یشانی کا سامنا کر ناپٹرا، نظریاتی اور پرانے کارکنوں کو کسی حد تک نظر انداز رکھا گیا جب کہ پنجاب سمیت ملک کے مختلف صوبوں میں پی ٹی آئی کے ٹکٹوں پر نظریاتی کارکنان کا بنی گالہ میں احتجاج بھی ہوا۔۲۲ سال کی انتھک محنت شائد خان صاحب کو تھکا دیاہے۔اپنے اسی جدوجہد میں وہ قوم کے اندر سیاسی شعور پیدا کر نے میں کامیاب بھی ہوا ہے میڈل کلاس اور تعلیم یافتہ لوگوں کو پاکستان کی سیاست میں دوبارہ لے آیا،لوگوں کو اس بات کا احساس دلانے میں کامیابی حاصل کر لی کہ ownership of the “public money پر عوام کو بولنے کا حق حاصل ہے۔
لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک میں زیادہ ترلوگ خان سرکار کو ایک دفعہ مرکز میں دیکھنا چاہتے ہیں،عوام کو ان کی تقرروں میں وزن نظر آتا ہے۔لیکن کہنے اور کر نے میں زمیں آسمان کا فرق ہوتاہے۔کیا ان سب باتوں کو عملی جامہ پہنانے میں پاکستان تحریک انصاف کامیاب ہو پائے گا،کیا خان صاحب کی ٹیم میں اسلامی دنیا کی واحد سپر پاور کو لیڈ کرنے کی صلاحیت ہے۔کیا خان سرکار اپنے وعدے کے مطابق وزیراعظم ہاوس اور گورنر ہاوس کو لائیبری میں کر سکتاہے۔کیا سویز بنکوں میں پڑے ہوئے پاکستان کی خزانے سے چرائے ہو ئے پیسے واپس لا سکتاہے۔کرپشن کا خاتمہ، دہشت گردی فرسودگی کے شکار اس نظام کو ختم کرے گی۔ قومی سلامتی ،سماجی و معاشرتی ترقی کے کاموں میں بیرونی دباؤ کو حسب روایت قبول کیا جائے گا، یا ڈٹ کر ان مقابلہ کرنا ہو گا ،ستر سال سے پاکستانی قوم بلادست طبقے کے استحصال ،بداعنوانی،ناانصافی اور ناقابل عمل پالیسوں کا شکار ہے، اس قوم کو اس شکنجے سے نکال لینا کو ئی آساں کام نہی۔معیشت کوغیر ضروری جکڑ بندیوں سے آزاد اور کھلی معیشت میں ڈھالنے کے لیے ایک قابل ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر پاکستان تحریک انصاف برسر اقتدار بھی آیا تو ایک مضبوط اپوزیشن کا سامنا کر نا پٹرے گا شاید پاکستان تحریک کو ٹف ٹائیم دے گا۔کیونکہ پاکستان کے سیاست کے منجھے ہوئے اور پرانے کھلاڑیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔جس میں آصف زرداری کی شاطر دماغ،میاں بر ادر اور کمپنی کے زیرک سیاسی چال،ہر قدم سوچ سمجھ کر رکھنا ہو گا۔پاکستان کی ترقی اور جناح کی پاکستان کے لیے خان سرکار کو مرکز میں ہی مضبوط ہونا ضروری ہے۔تبدیلی اور خوشحال پاکستان کے لیے قوم کے ہر فرد کو ساتھ لے چلنا ہو گا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔