چترال ،ہُما پرندہ کس کے سر پہ بیٹھے گا؟

………….تحریر: نثار احمد……….

 ملک کے عمومی سیاسی منظرنامے کی طرح چترال کا سیاسی منظر نامہ بھی تاحال خاصا “دُھندلا “پڑا ہے. بنابریں کسی بھی زاوئیے سے مشاہدہ و ملاحظہ کرنے کے بعد بھی اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی اور جیتنے والے کنڈیڈیٹ کے بارے میں پیشگی درست رائے قائم کرنا کافی مشکل لگ رہا ہے. انتخابات کے قریب عام طور پر جتنی زیادہ گہما گہمی کسی بھی انتخابی حلقے میں متوقع و مطلوب ہوتی ہے اُتنی زیادہ گہماگہمی چترال میں نظر نہیں آئی. اب جب انتخابات میں صرف تین چار دن رہ گئے ہیں تو کارکنوں میں جوش و خروش کسی حد تک بڑھا بھی ہے اور نظر بھی آ رہا ہے. اِس حلقے کی موجودہ سیاسی صورتحال اور مختلف پارٹیز کی طرف سے جاری انتخابی مہم کا بنظر ِغائر جائزہ لیا جائے تو جزم و وثوق کے ساتھ اندازہ لگا کر کوئی بھی یہ پیشن گوئی نہیں کر سکتا کہ پچیس جولائی کو جیت کا سہرا یہاں سے کونسا امیدوار اپنے سر پہ پانچ سال کے لئے سجا سکے گا. یوں تو پورے چترال سے ڈیڑھ درجن کے قریب امیدوار جیت کے ریس میں شریک ہیں. اِن میں شیر دل جیسے بے ضرر اور ملنگ امیدوار بھی ہیں اور شہزادہ تیمور جیسے پڑھے لکھے نہایت زہین اور دیانتدار امیدوار بھی. لیکن انتخابی محاذ میں فرسٹ، سکینڈ اور تھرڈ پوزیشن کے حصول کے لئے اِن درجن بھر امیدواروں میں سے صرف چار پارٹیوں کے امیدواروں کو سنجیدہ قرار دیا جا سکتا ہے. مسلم لیگ ن، ایم ایم اے، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے علاوہ باقی پارٹیوں میں بعض تو “جیتنے” سے زیادہ “ہرانے” کے مذموم مشن پر مصروف ِعمل ہیں. بلکہ زرائع کے مطابق اِن بعض نامزد امیدواروں کے میدان میں ڈٹے رہنے سے جن مگرمچھ ٹائپ امیدواروں کو فائدہ پہنچنے کا قوی اِمکان ہے اُن کی طرف سے اِن کی “مُٹھی” بھی گرم رکھنے کا فیاضانہ بندوبست کیا جا رہا ہے. مٹھی گرم ہو، اور ہرانے کا عرصے سے دل میں پرورش شُدہ جذبہ رُوبہ عمل آنے کو بیتاب مچل رہا ہو تو پھر کامل “دلجمعی” اور مکمل “خلوص” کے ساتھ تفویض شُدہ ڈیوٹی انجام نہ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.. بہرحال اس حلقے کی انتخابی سیاست کا ایک دلچسپ سے بھی بڑھ کر دلچسپ ترین پہلو یہ بھی ہے کہ یہاں کسی بھی ایک پارٹی کے پینل کے دونوں امیدواروں کا یکساں ووٹ لے کر جیتنا تقریباً ناممکن نظر آ رہا ہے. مثلاً تحصیل مستوج سے قومی میں شہزادہ افتخار کو ووٹ دینے والے ووٹرز صوبائی میں اُن کے کولیگ امیدوار عبد الولی ایڈووکیٹ کے مقابلے میں حاجی غلام محمد یا پھر اسرار صبور کو ووٹ دیں گے. اسی طرح لٹکوہ تحصیل سے قومی میں سلیم خان کو ووٹ دینے والے ووٹرز صوبائی میں اُن کے کولیگ غلام محمد کے مقابلے میں اسرار صبور کے حق میں اپنا ووٹ کاسٹ کریں گے. لٹکوہ تحصیل سے اسرار صبور کے ووٹرز کے لیے عبد الطیف کے مقابلے میں سلیم خان میں زیادہ کشش محسوس ہو گی. اویر وغیرہ سے عبد الطیف کے ووٹرز صوبائی میں ایم ایم اے کے مولانا ہدایت کے حق میں فیصلہ کر سکتے ہیں . اسی طرح برنس اور کُوہ سے قومی میں مولانا عبد الاکبر چترالی کو پڑنے والے ووٹ صوبائی میں مولانا ہدایت کے مقابلے میں عبد الولی ایڈووکیٹ کو پڑ سکتے ہیں اور کچھ ہو نہ ہو، بہرحال اِس جلیبی نُما پیچ در پیچ منظرنامے کے بطن سے یہ خیال ضرور برآمد ہوتا ہے کہ اس بار چترال میں انتہائی ٹف مقابلہ دیکھنے کو ملے گا. جہاں صوبائی میں اخونزادہ شفیق، سعادت حسین مخفی اور مولانا سراج کا براہ راست اثر مولانا ہدایت الرحمن پر پڑ رہا ہے وہیں پر قومی میں شہزادہ تیمور کا سلیم خان پر، اور امجد چوہدری کا شہزادہ افتخار پر بھی پڑ رہا ہے. میرے ناقص تجزیے کے مطابق صوبائی میں اصل مقابلہ اسرار صبور اور حاجی غلام محمد کا ہو گا. البتہ کراچی میں پڑے جے یو آئی کے ووٹرز کو چترال پہنچا کر، اور چترال میں موجود اپنے تمام ووٹرز کو پولنگ اسٹیشن تک لاکر مولانا ہدایت اِن دونوں کے مقابلے کا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں. دوسری طرف قومی میں اصل مقابلہ شہزادہ افتخار اور عبد الطیف کا ہو گا. یہاں پر مولانا چترالی یا پھر سلیم خان بھی سرپرائز دے سکتے ہیں. خیر جو بھی ہو صرف تین دن ہی تو باقی ہیں. اگر تجزیہ غلط بھی ہوا تو کوئی بات نہیں. زیادہ تر بابا قسم کے تجزیہ نگار بھی کامل ایک سو اسی ڈگری کے فرق سے غلط تجزیہ مارتے ہیں. ان انتخابات نے بہت سے لوگوں کو آزمائش میں بھی ڈالا ہے. مثلاً 1:اتحاد کے باوجود بھی خاکم بدہن اگر ایم ایم اے سیٹیں نہیں نکال سکی تو پھر یہ مذہبی جماعتوں کے اتحاد کو مستقبل کے لیے انتہائی بے وقعت بناکر رکھے گا 2: کیا اہلیان لٹکوہ اپنی سابقہ روایت کو توڑ کر ناقدین کا منہ بند کریں گے؟ یا اِس بار بھی قومی میں سلیم اور صوبائی میں اسرار صبور کو ووٹ دے کر ناقدین کو تنقید کا مضبوط و معقول جواز فراہم کریں گے؟ 3:کیا سلیم خان اپنے حلقہ اثر کو غلام محمد کے لیے ووٹ کاسٹ کرنے پہ قائل کر سکیں گے… اور بھی سوالات ہیں.. لیکن انگلی کے پوروں کو یہیں پہ روکتے ہیں..

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔