فکرفردا۔۔۔۔ہائی ووٹنگ ٹرن آوٹ اور چترال کی سیاست

 چترال کی انتخابی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہر الیکشن میں یہاں پولنگ ٹرن آوٹ صوبے کے تمام اضلاع کے مقابلے میں سب سے زیادہ رہی ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں چترال کا پولنگ ٹرن آوٹ کم وبیش 67 فیصد رہا جو کہ پاکستان میں سب سے زیادہ تھی ۔ اسی طرح حالیہ الیکشن میں بھی چترالیوں کے اپنی روایات کو برقرار رکھنے کے چانسز ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ہائی ٹرن آؤٹ کا فائدہ کس پارٹی کو پہنچے گا؟ چترال میں زیادہ ٹرن آؤٹ کی سب سے بڑی وجہ خواتین کا بلا روک ٹوک ووٹ ڈالنا ہے، چترال میں مذہبی وسیکولرز میں سے کوئی جماعت ایسی نہیں جو خواتین کو پولنگ اسٹیشنوں تک آنے سے روکے ۔ یہی چترال کے لوگوں کی جمہوری طرز سیاست کی سب سے بڑی مثال ہے ۔ جبکہ حالیہ انتخابات میں کم وبیش ہر سیاسی جماعت کے خواتین نے ڈور ٹو ڈور کمپین میں حصہ لیا ۔ روایتی طور پر چترال کے خواتین کی ہمدردیاں پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب رہی ہے جس کا کچھ حصہ خصوصا بے نظیر انکم سپورٹ سے مستفید ہونے والے خواتین کے اب بھی پی پی پی کے حق میں ووٹ کاسٹ کرنے کے امکانات ہے البتہ نوجوان مردوں کی طرح خواتین کا رجحان بھی پی ٹی آئی کی جانب ہے۔ اس کے علاوہ ڈاون ڈسٹرکٹ سے بڑی تعداد میں مدارس، یونیورسٹیوں اور کالجز کے اسٹوڈنٹس اور کاروباری وملازمت یافتہ افراد چترال کی جانب محو سفر ہے جو کہ نہ صرف ہائی ٹرن آوٹ کا باعث بن سکتے ہیں بلکہ چترال کی سیاست پر بھی اثر انداز ہونے کے کافی امکانات ہے۔ ڈاون ڈسٹرکٹ سے آنے والے چترالیوں کی بڑی تعداد ایم ایم اے اور پی ٹی آئی کے ووٹرز کی ہے۔ بحیثیت مجموعی اس ہائی ٹرن آؤٹ کی وجہ ایم ایم اے اور پی ٹی آئی کے باہر سے آنے والے ووٹر ز بھی ہونگے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو چترال کے دونوں نشستوں میں ان دو جماعتوں کے درمیان پانی پت کی لڑائی کا امکان ہے۔ البتہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ دونوں جماعتیں اپنی تجربات کی بنا پر آخر ی وقت میں بھی حالات کا رخ تبدیل کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔