ووٹ کیوں ڈالیں؟ انتخابات میں ووٹ کی اسلامی حیثیت

………….جسٹس (ر) حضرت مفتی محمد تقی عثمانی………..

موجودہ دور کی سیاست نے الیکشن اور ووٹ کے لفظوں کو اتنا بدنام کردیا ہے کہ ان کیساتھ مکرو فریب ،جھوٹ ،رشوت اور دغابازی کا تصور لازم ذات ہو کر رہ گیاہے،اسی لئے اکثر شریف لوگ اس جھنجھٹ میں پڑنے کو مناسب ہی نہیں سمجھتے۔اور یہ غلط فہمی تو بے حد عام ہے کہ الیکشن اور ووٹوں کی سیاست کا دین و مذہب سے کوئی واسطہ نہیں۔اس سلسلے میں ہمارے معاشرے کے اندر چند در چندغلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں،یہاں ان کا ازالہ بھی ضروری ہے۔

پہلی غلط فہمی تو سیدھے سادے لوگوں میں اپنی طبعی شرافت کی وجہ سے پیدا ہوئی ،اس کا منشاء اتنابرا نہیں ،لیکن نتائج بہت برے ہیں ،وہ غلط فہمی یہ ہے کہ آج کی سیاست مکرو فریب کا دوسرا نام بن چکی ہے،اس لئے شریف آدمیوں کو نہ سیاست میں کوئی حصہ لینا چاہیے ،نہ الیکشن میں کھڑا ہونا چاہیے اور نہ ووٹ ڈالنے کے خرخشے میں پڑنا چاہیے۔

یہ غلط فہمی خواہ کتنی نیک نیتی کے ساتھ پیدا ہوئی ، لیکن بہر حال غلط اور ملک و ملت کے لیے سخت مضر ہے،ماضی میں ہماری سیاست بلاشبہ مفاد پرست لوگوں کے ہاتھوں گندگی کا ایک تالاب بن چکی ہے،لیکن جب تک کچھ صاف ستھرے لوگ اسے پاک کرنے کے لئے آگے نہیں بڑھیں گے اس گندگی میں اضافہ ہی ہوتا چلاجائیگا۔اور پھر ایک دن یہ نجاست خود ان کے گھروں تک پہنچ کررہے گی۔لہٰذا عقلمندی اور شرافت کا تقاضہ یہ ہے کہ سیاست کے میدان کو ان لوگوں کے ہاتھ سے چھیننے کی کوشش کی جائے جو مسلسل اسے گندا کررہے ہیں۔

حضرت ابو بکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ سرور کونین ﷺنے ارشادفرمایا:

ترجمہ:’’ اگر لوگ ظالم کو دیکھ کر اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب عام نازل فرمائیں‘‘۔

اگر آپ کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں کہ ظلم ہورہا ہے ،اور انتخابات میں سرگرم حصہ لے کر اس ظلم کو کسی نہ کسی درجے میں مٹانا آپ کی قدرت میں ہے تو اس حدیث کی رو سے یہ آپ کا فرض ہے کہ خاموش بیٹھنے کے بجائے ظالم کا ہاتھ پکڑکر اس ظلم کو روکنے کی مقدور بھر کوشش کریں۔

بہت سے دین دار لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم اپناوو ٹ استعمال نہیں کریں گے تو اس سے کیا نقصان ہوگا ؟ لیکن سنیے:کہ سرکاردوعالم ﷺکیا ارشاد فرماتے ہیں؟حضرت سہل بن حنیفؓ سے مسند احمد میں روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ترجمہ: ’’جس شخص کے سامنے کسی مومن کو ذلیل کیا جارہا ہو اور وہ اس کی مدد کرنے پر قدرت رکھنے کے باجود مدد نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اسے (قیامت کے میدان میں)برسرعام رسواکرے گا‘‘۔

شرعی نقطۂ نظر سے ووٹ کی حیثیت شہادت اور گواہی کی سی ہے،اور جس طرح جھوٹی گوا ہی د ینا حرام اور ناجائز ہے۔اسی طرح ضرورت کے موقع پر شہادت کو چھپانا بھی حرام ہے۔قرآن کریم کا ارشاد ہے

ترجمہ: ’’اور تم گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو شخص گواہی کو چھپائے اس کا دل گناہ گارہے‘‘۔

اور حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ترجمہ: ’’جس کسی کو شہادت کے لئے بلایا جائے پھر وہ اسے چھپائے تو وہ ایسا ہے جیسے جھوٹی گواہی دینے والا‘‘۔

بلکہ گواہی دینے کے لئے تو اسلام نے اس بات کو پسند کیاہے کہ کسی کے مطالبہ کرنے سے پہلے ہی انسان اپنا یہ فریضہ ادا کردے ،اور اس میں کسی دعوت یا ترغیب کا انتظار بھی نہ کرے ، حضرت زید بن خالدؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ترجمہ: کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ بہترین گواہ کون ہے؟ وہ شخص ہے جو اپنی گواہی کسی کے مطالبہ کرنے سے پہلے ہی ادا کردے۔

ووٹ بھی بلاشبہ ایک شہادت ہے، قرآن و سنت کے تمام احکام اس پر بھی جاری ہوتے ہیں،لہٰذا ووٹ کو محفوظ رکھنا دینداری کا تقاضا نہیں ،اس کا زیادہ سے زیادہ صحیح استعمال کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ یوں بھی سوچنے کی بات ہے کہ اگر شریف دیندار اور معتدل مزاج کے لوگ انتخابات کے تمام معاملات سے بالکل یکسو ہو کر بیٹھ جائیں تواس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ وہ پورا میدان شریروں ،فتنہ پردازوں اور بے دین افراد کے ہاتھوں میں سونپ رہے ہیں ایسی صورت میں کبھی بھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ حکومت نیک اور اہلیت رکھنے والے افراد کے ہاتھ میں آئے گی،اگر دین دار لوگ سیاست سے اتنے بے تعلق ہو کر رہ جائیں تو پھر انہیں ملک کی دینی اور اخلاقی تباہی کا شکوہ کرنے کا بھی کوئی حق نہیں پہنچتا،کیوں کہ اس کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے اور ان کے احکام کا سارا عذاب و ثواب ان ہی کی گردن پر ہو گا اور خود ان کی آنے والی نسلیں اس شروفساد سے کسی طرح محفوظ نہیں رہ سکیں گی جس پر بند باندھنے کی انہوں نے کوئی کوشش نہیں۔

انتخابات کے سلسلے میں ایک دو سری غلط فہمی پہلی سے زیادہ سنگین ہے ۔چونکہ دین کو لوگوں نے صرف نماز ،روزے کی حد تک محدود سمجھ لیا ہے،اس لئے سیاست و معیشت کے کاروبار کو وہ دین سے بالکل الگ تصور کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سارے معاملات دین کی گرفت سے بالکل آزاد ہیں ۔ چنانچہ بہت سے لوگ ایسے بھی دیکھے گئے ہیں جو اپنی نجی زندگی میں نماز ،روزے اور وظائف واوراد تک کے پاپند ہوتے ہیں لیکن نہ انہیں خریدوفروخت کے معاملات میں حلال وحرام کی فکر ہوتی ہے ،نہ وہ نکاح وطلاق اور برادریوں کے تعلقات میں دین کے احکام کی کوئی پرواکرتے ہیں۔

ایسے لوگ انتخابات کو بھی ایک خالص دنیاوی معاملہ سمجھ کر اس میں مختلف قسم کی بدعنوانیوں کو گوارا کرلیتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ ان سے کوئی بڑا گناہ سرزد ہواہے ،چنانچہ بہت سے لوگ اپنا ووٹ اپنی دیانتدارانہ رائے کے بجائے محض ذاتی تعلقات کی بنیاد پر کسی نااہل کو دے دیتے ہیں ،حالانکہ وہ دل میں خوب جانتے ہیں کہ جس شخص کو ووٹ دیاجارہا ہے وہ اس کا اہل نہیں ،یا اس کے مقابلے میں کوئی دوسرا شخص اس کا ذیادہ حق دار ہے ،لیکن صرف دوستی کے تعلق ،برادری کے رشتے ،یا ظاہری لحاظ ومر وت سے متاثر ہو کر وہ اپنے ووٹ کو غلط جگہ استعمال کرلیتے ہیں۔اور کبھی خیال میں بھی نہیںآتا کہ شرعی و دینی لحاظ سے انہوں نے کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کیاہے۔

جیسا کہ اوپر عرض کیا جاچکا ہے کہ ووٹ ایک شہادت ہے اور شہادت کے بارے میں قرآن کریم کا ارشاد یہ ہے۔

ترجمہ: ’’اورجب کوئی بات کہو تو انصاف کرو،خواہ وہ شخص(جس کے خلاف بات کہی جارہی ہے)تمہارا قرابت دار ہی کیوں نہ ہو ۔

لہٰذا جب کسی شخص کے بارے میں ضمیر اوردیانت کافیصلہ یہ ہو کہ جس شخص کو ووٹ دے رہے ہو وہ ووٹ کا مستحق نہیں ہے۔یا کوئی دوسر ا شخص اس کے مقابلے میں زیادہ اہلیت رکھتا ہے،تواس وقت محض ذاتی تعلقات کی بناء پر اسے ووٹ دے دینا جھوٹی گواہی کے ذیل میں آتا ہے اور قرآن کریم میں جھوٹی گواہی کی مذمت اتنی شدت کے ساتھ کی گئی ہے کہ اسے بت پرستی کے ساتھ ذکر فرمایاگیاہے۔ارشادہے:

ترجمہ: پس تم پرہیز کرو بتوں کی نجاست سے اور پرہیز کرو جھوٹی بات کہنے سے۔

اور حدیث شریف میں سرکار دو عالم ﷺ نے متعدد مواقع پر جھوٹی گواہی کو اکبر الکبائر میں شمار کرکے اس پر سخت وعید ارشاد فرمائی ہے۔حضرت ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں اکبر الکبائر (بڑے بڑے گناہ)نہ بتاؤں ؟اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا اور خوب اچھی طرح سنو!جھوٹی گواہی جھوٹی بات! حضرت ابوبکرصدیقؓفرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے تھے ،جب جھوٹی گواہی کا ذکرآیا تو اٹھ کر بیٹھ گئے۔جھوٹی گواہی کا لفظ باربار ارشاد فرماتے رہے ،یہاں تک کہ ہم دل میں کہنے لگے کہ کاش!آپ ﷺخاموش ہوجائیں۔ (بخاری و مسلم ،جمع الفوائد صفحہ ۲۶۱ جلد۲)

یہ وعیدیں تو صرف ووٹ کے اس غلط استعمال پر صادق آتی ہیں جو محض ذاتی تعلقات کی بناء پر دیا گیا ہو،اور روپے پیسے لے کر کسی نااہل کو ووٹ دینے میں جھوٹی گواہی کے علاوہ رشوت کا عظیم گناہ بھی ہے۔

لہٰذا ووٹ ڈالنے کے مسئلہ کو ہر گزیوں نہ سمجھا جائے کہ یہ ایک خالص دنیوی مسئلہ ہے،اوردین سے اس کا کوئی تعلق نہیں ،یقین رکھئے کہ آخرت میں ایک ایک شخص کو اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونا ہے ،اور اپنے دوسرے اعمال کے ساتھ اس عمل کا بھی جواب دینا ہے کہ اس نے اپنی اس شہادت کا استعمال کس حد تک دیانت داری کے ساتھ کیا ہے۔

بعض حضرات یہ سوچتے ہیں کہ اگر نا اہل کو ووٹ دینا گناہ ہے تو ہم کون سے پاکباز ہیں؟ہم صبح سے لے کر شام تک بے شمار گناہوں میں ملوث رہتے ہیں۔ اگر اپنے گناہوں کی طویل فہرست میں ایک اور گناہ کا اضافہ ہو جائے تو کیا حرج ہے؟

لیکن خوب سمجھ لیجئے کہ یہ نفس وشیطان کا سب سے بڑا دھوکہ ہے اول تو انسان اگر ہر گناہ کے ارتکاب کے وقت یہی سوچاکرے تو وہ کبھی کسی گناہ سے نہیں بچ سکتا، اگر کوئی شخص تھوڑی سی گندگی میں ملوث ہوجائے تو اس کو اس سے پاک ہونے کی فکر کرنی چاہیے نہ یہ کہ وہ غلاظت کے کسی تالاب میں چھلانگ لگادے۔

دوسری بات یہ کہ گناہ کی نوعیتوں میں بھی فرق ہے ،جن گناہوں کے نتائج بد پوری قوم کو بھگتنے پڑیں ،ان کا گناہ پرائیویٹ گناہ کے مقابلے میں بہت سخت ہے، انفرادی نوعیت کے جرائم ،خواہ اپنی ذات میں کتنے ہی گھناؤنے اور شدید ہوں،لیکن ان کے اثرات دو چار افراد سے آگے نہیں بڑھتے ،اس لئے ان کی تلافی بھی عموماً اختیار میں ہوتی ہے، ان سے توبہ واستغفار کرلینا بھی آسان ہے،اور ان کے معاف ہوجانے کی امید بھی ہر وقت کی جاسکتی ہے ۔اور اس کے برخلاف جس گناہ کابرا نتیجہ پورے ملک اور پوری قوم نے بھگتناہو ،اس کی تلافی کی کوئی صورت نہیں ، یہ تیرکمان سے نکلنے کے بعد واپس نہیں آسکتا،اس لئے اگر کسی وقت انسان اس بدعلمی سے آئندہ کے لیے توبہ کرلے تو کم ازکم ماضی کے جرم سے عہدہ برا ہونا بہت مشکل ہے اور اس کے عذاب سے رہائی کی امید بہت کم ہے۔

اس حیثیت سے یہ گناہ چوری ،ڈاکہ ،زناکاری اور دوسرے تمام گناہوں سے شدید تر ہے اور اسے دوسرے جرائم پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔

یہ درست ہے کہ ہم صبح و شام بیسیوں گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں ،مگر سب گناہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی وقت توبہ کی توفیق بخشے تو معاف بھی ہو سکتے ہیں اور ان کی تلافی بھی کی جاسکتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ اپنی گردن ایک ایسے گناہ میں بھی پھنسالیں جس کی تلافی نا ممکن اور جس کی معافی بہت مشکل ہے۔

بعض لوگ یہ بھی سوچتے ہیں کہ لاکھوں ووٹوں کے مقابلے میں ایک شخص کے ووٹ کی کیا حیثیت ہے؟اگر وہ غلط استعمال بھی ہو جائے تو ملک و قوم کے مستقبل پر کیا اثر انداز ہو سکتا ہے؟

لیکن خوب سمجھ لیجئے کہ اول تو اگر ہر شخص ووٹ ڈالتے وقت یہی سوچنے لگے تو ظاہر ہے کہ پوری آبادی میں کوئی ایک ووٹ بھی صحیح استعمال نہ ہو سکے گا۔پھر دوسری بات یہ ہے کہ ووٹوں کی گنتی کا جو نظام ہمارے یہاں رائج ہے اس میں صرف ایک ان پڑھ جاہل شخص کا ووٹ بھی ملک وملت کے لئے فیصلہ کن ہوسکتا ہے،اگرایک بے دین،بد عقیدہ اور بدکردارامید وار کے بیلٹ بکس میں صرف ایک ووٹ دوسروں سے زیادہ چلاجائے تو وہ کامیاب ہو کر پوری قوم پر مسلط ہو جائے گا۔اس طرح بعض اوقات صرف ایک جاہل اور ان پڑھ انسان کی معمولی سی غفلت ،بھول چوک یا بددیانتی بھی پورے ملک کو تباہ کرسکتی ہے۔اس لئے مروجہ نظام میں ایک ایک ووٹ قیمتی ہے اور یہ ہر فرد کا شرعی،اخلاقی ،قومی اور ملی فریضہ ہے کہ وہ اپنے ووٹ کو اتنی توجہ اور اہمیت کے ساتھ استعمال کرے جس کا وہ فی الواقع مستحق ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔