تحریک انصاف کا بڑا امتحان

…………محمد شریف شکیب……….
پاکستان میں انتخابی عمل بطریق احسن تکمیل کو پہنچا۔ پاکستان تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت بن کر ابھری۔پی ٹی آئی نے نہ صرف صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت خیبر پختونخوا میں اکثریت حاصل کرلی بلکہ قومی سطح پر بھی پی ٹی آئی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔ پشاور میں قومی اسمبلی کی پانچوں اور صوبائی اسمبلی کی تمام 13نشستوں پر پی ٹی آئی نے کامیابی حاصل کرکے سب کو حیران کردیا ہے۔پی ٹی آئی کی غیر معمولی کامیابی کے ساتھ خیبر پختونخوا کی ایک پرانی سیاسی روایت بھی بدل گئی ہے کہ اس صوبے کے عوام کسی پارٹی کو مسلسل دوسری بار موقع نہیں دیتے۔ پی ٹی آئی کی غیر معمولی کامیابی کے حوالے سے سیاسی مخالفین کیا کہہ رہے ہیں اس سے قطع نظر یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ پی ٹی آئی کے تبدیلی لانے کے نعرے نے کام دکھا دیا ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ نوجوانوں کے ووٹ نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف خود پی ٹی آئی کو ووٹ دیا ۔ بلکہ اپنے والدین اور رشتہ داروں کو بھی قائل کرلیا اور انہیں گھروں سے نکال کر پولنگ اسٹیشنوں پر لے آئے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ انتخابات میں ٹرن آوٹ گذشتہ تمام انتخابات سے زیادہ رہا۔پی ٹی آئی کی قیادت کو یقیناًاحساس ہوگا کہ پاکستان کے عوام نے تبدیلی لانے کی امید پر پی ٹی آئی کو اتنا زیادہ مینڈیٹ دے کر انہیں امتحان میں ڈال دیا ہے۔ عمران خان کو تبدیلی لانے کے اپنے منشور پر اب عمل کرکے دکھانا ہوگا۔ اور تبدیلی حکومت کے پہلے سال کے اندرعوام کونظر آنی چاہئے۔ 2013سے 2018تک خیبر پختونخوا میں حکومت کرنے کا اسے تجربہ ہوچکا ہے۔ گذشتہ پانچ سالوں میں صوبے کی سطح پر اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام ہونے کا انہوں نے یہ جواز پیش کیا تھا کہ مرکز میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے ہر مرحلے پر خیبر پختونخوا حکومت کی مخالفت کی اور اس کی راہ میں روڑے اٹکائے۔ قومی مالیاتی کمیشن میں صوبے کا جو حق بنتا تھا ۔ وہ نہیں دیا گیا۔ بجلی کے منافع کے بقایاجات میں بھی صوبے کا پورا حصہ نہیں دیا گیا نہ ہی وفاق نے اپنے ذمے کے وسائل فراہم کئے۔ جس کی وجہ سے اسے بی آر ٹی سمیت ترقیاتی منصوبوں کے لئے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضے لینے پڑے۔اب پی ٹی آئی کو وفاق میں بھی حکومت بنانے کا موقع ملا ہے۔اسے اپنی پالیسیوں اوراقدامات کے ذریعے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ملک وقوم کے بارے میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں سے مختلف سوچتی ہے۔پی ٹی آئی حکومت کے سامنے ایسے بڑے چیلنجز ہیں جن کا تعلق ملک کی سلامتی ، ساکھ، وقار اور قوم کی فلاح و بہبود سے ہے۔ ملک کو مستقبل کے آبی بحران سے بچانے کے لئے پالیسیوں اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ قومی امنگوں سے ہم آہنگ خارجہ پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کو مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی سے نجات دلانے کے لئے انقلابی پالیسیاں درکار ہیں۔توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔معیاری تعلیم کو فروغ دینا سب سے زیادہ اہم ہے۔ صحت اور بنیادی شہری سہولیات عوام کو ان کی دہلیز تک پہنچانے کے لئے منصوبے شروع کرنے ہیں۔سی پیک اور دیگر قومی اہمیت کے منصوبوں کو تکمیل تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ ملک میں امن کے قیام کے ساتھ قوم میں رواداری ، برداشت اور تحمل کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔ یہ کام پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تنہا نہیں کرسکتی۔ اس کے لئے قومی یک جہتی اور اتفاق و اتحاد
پیدا کرنا ہوگا۔ قومی اداروں کو سیاست سے پاک اور مضبوط بنانا ہوگا۔ کرپشن، رشوت ستانی، سفارش ، چوربازاری اور غنڈہ گردی کا خاتمہ کرنا ہوگا۔یہ کام اتنے سادہ اور آسان نہیں ہیں جتنی آسانی سے انہیں بولا اور لکھا جاتا ہے۔ عمران خان پارلیمنٹ پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔ اب پارلیمنٹ کو عوام کا حقیقی نمائندہ اور مقتدر ادارہ بنانا بھی حکومت کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ ان قومی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لئے جوش کے بجائے ہوش، تدبر، مشاورت اور قومی یکجہتی کے ذریعے کام کرنا ہوگا۔ تب ہی پاکستان بدلے گا ۔ عوام کو تبدیلی نظر آئے گی اور قائد اعظم کے پاکستان کی تشکیل کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔