مستحسن فیصلہ

قومی انتخابات میں چترال کی نشستوں سے نمائندگی کے واسطے علمائے کرام کا انتخاب یہاں کے عوام کی مذہب سے وابستگی اور دینی رہنماوں کی قدردانی کا مظہر ہے۔ جو بجا طور پر ایک قابل فخر عمل ہے۔ کیونکہ یہی وہ طبقہ ہے جو اللہ رب العزت اور ان کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے نظام حیات کے مطابق زندگی گزارنے کے معاملے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ اور معاشرے کو مسلمہ قواعد وضوابط کے رنگ میں رنگین کرنے کی ذمہ داریاں نبھانا ہے۔باہمی محبت،اخوت اور بھائی چارے کو فروغ دے کر ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کے لئے سرگرم عمل رہتاہے۔اور ہر قسم کی ناانصافیوں برائیوں اور ناشائستہ اعمال سے اغماض کی ترغیب کے فرائض انجام دیتا ہے ۔حقیقتًا علمائے کرام کا وجود معاشرتی زندگی کو انسانیت کے تقاضوں سے ہمکنار کرنے اور بنی نوع انسان کی ہمہ گیر فوائد کا آئینہ دارہوتا ہے۔ اس لئے میرے عظیم پیغمبرﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ عالم دین ایک درخت سے مماثلت رکھتا ہے۔ اگر درخت پھلدار ہو تو اس کے میوے کی افادیت سے انسان مستفید ہوتا ہے۔ اگر پھلدار نہ ہو تو اس کے سائے میں بیٹھا جاسکتا ہے اور اگر خشک ہوجائے تو اس کی لکڑی جلانے کے کام میں لائی جاسکتی ہے۔
اس مناسبت سے ایک واقعہ کتابوں میں ملتا ہے کہ ایک بادشاہ اہمیت کے حامل قومی امور کے سلسلے میں ملک کے علمائے کرام سے مشاورت کرتا تھا۔ اور انکی ملکہ علماء کی بجائے صاحب الرائے اور دانشور لوگوں کی آرآ کو اہمیت دیتی تھی۔ ایک دفعہ اس معاملے پر باہمی بحث و تمحیص کے دوران بادشاہ نے کہا ہے کہ ہمارا وجود علمائے کرام کا مرھون منت ہے۔ اور ان کے بغیر ہمیں جینے کا سلیقہ بھی نہ آتا۔ اس بحث و تمحیص کے چند دن بعد بادشاہ ایک بکری اور ان کے دودھ پیتے بزغالے کے ساتھ محل کے اندر منگوالیتے ہیں۔ملکہ بزغالے کی خوبصورتی پر فدا ہوتی ہیں اور زیادہ وقت اُسے گود میں لیتی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ایک دن بادشاہ اپنی ملکہ کے ہمراہ محل کے باہر چمن میں بیٹھے تھے۔ کہ بزغالہ شہوانی تصور سے ماں کی پیٹھ پر چڑھ دوڑتے ہوئے سامنے آتے ہیں۔یہ منظر دیکھ کر ملکہ کی چیخ نکلتی ہے اور نمک حرامی کا طعنہ دیتے ہوئے بزغالے کو مارنے کے لئے تلوار کا تقاضا کرتی ہیں ۔ جس پر بادشاہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ غصے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ چو پایوں کی دنیا ٰمیں علمائے کرام نہ ہونے کی وجہ سے ان کے باہمی رشتوں ناتوں کا تصور مٹ جاتا ہے۔ اگر انسانوں کا معاشرہ بھی اس طبقے سے محروم ہوتا تو ہماری کیفیت بھی ان سے مختلف نہ ہوتی۔
بحرحال ان حقائق کے باوجود یہ امر بھی قابل بھی ذکر ہے کہ علمائے کرام کی زندگی کے سفر میں انتہائی محتاط طریقے سے قدم رکھنا ہوگا۔ کیونکہ آپ کی معمولی لعزش اس منصب کے سفید لباس میں کالے دھبے کی صورت میں نمایاں نظر آئے گا۔ جس طرح
امام ابو حنیفہ ؒ ایک چھوٹے بچے کو کیچڑ میں پھسلنے سے بچنے کے لئے محتاط قدم رکھنے کی تلقین کرنے پر بچہ جواب میں کہتے ہیں کہ حضرت! میرے پھسلنے سے کچھ بھی نہ ہوگا آپ احتیاط کیجئے کیونکہ آپ کے پھسلنے کے اثرات پوری اُمت پر پڑیں گے۔
علمائے حق کی قدردانی پر مبنی ان چند جملوں کے بعد جہاں تک مولانا عبدالاکبر صاحب کا تعلق ہے اگر اسے گفتار اور کردا ر دونوں کا غازی کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔آپ چترا لی عوام کے مسائل اور حقوق کی آواز اقتدار کے ایوانوں تک موثر انداز میں پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہماری نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔