رُموز شادؔ ۔۔ ’’ خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان‘‘

’’ خود کشی کا بڑھتا ہوا رجحان‘‘
آج کل ہماری شامت اعمال کے نتیجہ میں دنیا طرح طرح کے فتنوں اور قسم قسم کے حادثات اور سانحات کی آماجگاہ بن چکی ہے۔ اخبارات انسانوں کے ہلاکت خیز واقعات سے بھرے ہوتے ہیں۔ سینکڑوں انسانوں کا ہلاک ہوجانا ایک معمول بن گیا ہے۔ ان ہلاکت خیزیوں میں سے ایک اقدام ’’ خودکشی‘‘ بھی ہے۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کیلئے ایک انمول تحفہ ہے ، جو امانت کے طور پر دی گئی ہے اور اس امانت کو خود اپنے ہاتھوں سے ضائع کرنے پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینا کہاں کی دانشمندی ہے؟ خودکشی کا یہ عمل آج کل خواتین میں بہت زیادہ بڑھ گیا ہے ۔ خواتین گھریلونا چاقی کے سبب اتنا سنگین قدم اٹھا بیٹھتی ہیں ۔ کیا خودکشی جیسے حرام فعل کا ارتکاب کرنے میں مسائل کا حل ہے ؟ خود سوچیں دنیاوی مشکلات سے اگر خودکشی کے ذریعے نجات پالی لیکن کیا یہ یقین ہے کہ عذاب قبر سے محفوظ رہیں گے؟ مقصد کہنے کا یہ ہے کہ زندگی ہی میں صبر و تحمل سے کام لیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی رہا جائے تو اللہ تعالیٰ سے اس صبر کے بدلے ضرور اجر و ثواب کی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ضرور کسی چھوٹی سی چھو ٹی نیکی کے بدلے بخشش کا سامان پیدا کردے گا۔( انشاء اللہ)۔ کاش ایسا برا اقدام کرنے والے اگر یہ سوچیں کہ ہمارے پیچھے زندہ رہ جانے والوں کیلئے ہماری وجہ سے کیا مسائل کھڑے ہوں گے ؟ پولیس سے جان چھڑانا ، خاندان والوں سے منہ چھپانا، بچوں کیلئے ساری عمر کا طعنہ بن جانا ۔ یہ سارے مسائل کون حل کرے گا؟ اکثر نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنی بات منوانے کیلئے بھی یہ حربہ استعمال کرتے ہیں، حالات کتنے ہی نا گفتہ بہ ہو جائیں، مسائل کی نوعیت کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہوجائے اس اقدام سے مکمل گریز کرنا چاہیے۔ صبر سے کام لینا چاہیے ۔ دنیا کی تکلیفوں سے کسی کو بھی مکمل چھٹکارا نہیں مل سکتا اور اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی فیصلہ حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ خواہ اس کی حکمت ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے ، صبر سے انسان کو تسلی ہوتی ہے ، بے چینی میں کمی آتی ہے ، دل کو قرار نصیب ہوتاہے۔
تکلیف کے موقع پراس تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کرنا بھی صبر کے خلاف نہیں ۔ کہنے کو صبر ایک مختصر عمل ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے یہاں اس پر جو اجر و ثواب لکھا جاتاہے اس کا تصو ر بھی اس وقت ہمارے لئے ممکن نہیں ہے۔ خودکشی کرنے والے پر جنت کو حرام کر دیا گیا ہے۔ حضر ت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: ’’ جس نے اپنی جان کو ہلاک کیا تو قیامت تک اس کو یہی عذاب دیا جائے گا کہ اپنی جان کو ہلاک کرتا رہے گا اور پھر جس طرح سے اپنی جان کو ہلاک کیا اسی طرح دوزخ میں ہلاک کرتا رہے گا، جس نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرایا وہ پہاڑ سے گرایا جاتا رہے گا ، اور جس نے زہر پیا اور زہر پلایا جاتا رہے گا اور جس نے اپنے آپ کو چھری سے قتل کیا وہ چھری سے ذبح ہوتا رہے گا‘‘۔بالکل اسی طرح جس نے دریا میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی اس کے ساتھ بھی یہی حشر برپا ہوگا۔ مطلب یہ کہ جس فعل سے خود کشی کا وقوع ہوا ہے دوزخ میں اس کا فعل اس کے ساتھ ہوتا رہے گا ۔ ایک دوسری حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’ ایک زخمی آدمی نے اپنے آپ کو مرنے سے پہلے قتل کر لیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ اے میرے بندے تو نے اپنی جان دینے میں جلدی کی میں نے تجھ پر جنت حرام کر دی‘‘۔
’’ا ب تو گھبرا کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کر بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے‘‘
جس طرح خود گناہوں سے بچنا ضروری ہے۔ اسی طرح حتی المقدور دوسروں کو بچانے کی کوشش بھی فرض ہے اور اس میں غفلت کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔