فکرفردا…..آلو کی سیاست

ان دنوں چترال کی سیاست پر آلوکا راج ہے ، یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہر کھانے کے ساتھ خود کو ضم کرنے والاآلو چترال کی سیاست کو گرمانے میں اہم کردار اداکررہے ہیں ۔اس بحث بلکہ جھگڑے کی ابتدا اس وقت ہوئی جب تحصیل میونسپل ایڈمینسٹریشن نے لٹکوہ سے آلو باہر کے علاقوں میں لے جانے والے کاروباری افرادپر ٹیکس عاید کردی ۔گو کہ پورا ملاکنڈ ڈویژن ٹیکس فری زون ہے لیکن لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013-14 میں مقامی حکومتوں کو اپنے حلقوں میں ٹیکس نافذ کرنے کا بھی اختیار دیا گیا ہے حقیقت یہ ہے کہ سرکاری مشینری ٹیکسز سے چلتی ہے ۔ لیکن ہمارے ہاں ٹیکسوں کا نام سنتے ہی سب کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں البتہ حکومت وقت سے ہمارے مطالبات لامتناہی ہے ۔ تحصیل کونسل چترال نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013۔14 میں دئیے گئے اختیار کر استعمال کرتے ہوئے لوئر چترال پر ٹیکس عاید کردیا ہے تاکہ سرکاری نظام کو بہتر انداز سے چلایا جاسکیں۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب لٹکوہ سے آنے والے آلو اور ٹماٹر کے ٹرکوں سے ٹیکس وصول کیا جانے لگا تو عوام بالخصوص سیاست دانوں نے ان ٹیکسز کے خلاف احتجاج شروع کردیا اب وہ انہیں غنڈہ ٹیکس کا نام دے رہے ہیں۔ ٹیکسوں کے نفاذ میں اس وقت مزید پیچیدگی دیکھنے کو ملی جب لٹکوہ کریم آباد سے ممبر تحصیل کونسل محمد علی شاہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ میں خود تحصیل گورنمنٹ میں ٹیکس کمیٹی کا ممبر ہوں لیکن موجودہ ٹیکسز کو عاید کرتے وقت مجھ سے کسی نے پوچھنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی اور میرے علم میں لائے بنا سارے ٹیکسز کا نفاذ ہوا ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ چار مہینوں سے تحصیل کونسل کا ایک بھی اجلاس منعقد نہیں ہوا۔محمد علی شاہ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ تحصیل کونسل چترال کا پہلا اے ڈی پی 11 کروڑ روپے کے تھے ان میں سے لٹکوہ کے تین ممبران تحصیل کونسل کو صرف تیس تیس لاکھ روپے دئیے گئے باقی حکومتی اہلکار اپنے اپنے علاقوں میں لے جاکر خرچ کیا ۔ اس سارے قضئے میں دو قسم کے رجحانا ت پائے جاتے ہیں ایک یہ کہ ہم ٹیکس نہیں دینگے جبکہ دوسرا خواہ مخواہ ٹیکس لینے پر بضد ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جہاں ٹیکس عائد کیا جارہا ہے اس کے عوض وہاں کے عوام کو کیا ملے گا؟ چونکہ آلو، مٹر اور ٹماٹر لٹکوہ کی پیداوار ہے ، اور ان فصلوں کو کل 50 سے 60 کروڑ کی آمدن حاصل ہورہی ہے ۔ اگر ان پیدواری اشیاء پر ٹیکس عاید کرکے کروڑوں روپے کے ریونیو حاصل کرسکتے ہیں تو تحصیل میونسپل ایڈمینسٹریشن اور تحصیل کونسل کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان علاقوں میں سڑکوں کی حالت بہتر بنانے ، نہری نظام کو درست کرنے ، ان سبزیوں کو اسٹور کرنے اور بروقت مارکیٹ تک پہنچانے میں کاشتکاروں کی مدد کریں لیکن ایسا کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے ۔ این جی اوز کے بنائے ہوئے سڑکوں اور نہروں کو استعمال کرتے ہوئے تحصیل انتظامیہ کو ٹیکس دینا اور وہ ٹیکس بھی لٹکوہ کی بجائے دوسرے علاقوں میں خرچ ہونا سراسر ناانصافی ہے ۔ البتہ لٹکوہ کے پڑھے لکھے لوگوں کو اب آگے آکر تحصیل میونسپل انتظامیہ ، تحصیل کونسل، ضلع کونسل ، ضلع ناظم ، تحصیل ناظم اور دوسرے سرکاری محکموں کو اس بات کا پابند بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ سڑکوں کی تعمیر ومرمت اور زمینات کے لئے نہروں کی بحالی کو ممکن بنائے تاکہ سبزیوں کی پیداوار میں مزید بہتری لائی جاسکیں۔ اس سے سرکار کو ٹیکسوں کی مد میں مزید ریونیو حاصل ہوسکے گا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔