دھڑکنوں کی زبان …… محبت کے تقاضے

محبت ایک فطری عمل ہے کہ کبھی شدت اختیار کرکے قابو سے باہر بھی ہوجاتی ہے ۔۔محبت کے تقاضے ہوتے ہیں عشق کے کوئی تقاضے نہیں ہوتے ۔۔کیونکہ عشق میں یہ پھر دیونگی بن جاتی ہے ۔۔۔ہم لوگوں کی سوچیں بھی سنجیدہ نہیں ۔۔لگتا ایسا ہے ۔۔ہم اپنے محبوب کی کوئی فطری کمزوری بھی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے حالانکہ یہی کمزوری اس کی خوبی بھی ہوسکتی ہے۔۔ہمارے قومی ہیروز کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے ایک اس کو سر پہ بیٹھائے تو دوسرا اس کو کسی کام کے قابل نہیں سمجھتا۔اس وجہ سے دور ممالک میں اس کی قدر کم ہوتی ہے ۔۔ہم محبت کرنے اور محبت کے تقاضے نبھانے میں آزادہیں ۔۔مگر جس سے محبت کرتے ہیں اس کے گرد نفرت کا حالہ بناتے ہیں ۔۔ایسا لگتا ہے کہ اس سے کوئی دوسرا محبت نہ کرے ۔۔حالانکہ تقاضایوں ہونا چاہیے کہ اس کی صلاحیتوں کی اتنی تشہیر کی جائے کہ سب لوگ اس کے دیوانے بن جائیں ۔ کون کہتا ہے کہ محبت اندھی ہوتی ہے محبت جب اندھی ہو جائے تو محبت کرنے والا بھی اکیلا ہوتا ہے اور محبوب بھی ۔۔ہمارے پیارے ملک کے سیاسی ہیروز مجھے قابل رحم لگتے ہیں ان سے محبت کرنے والے ان کو اتنا سر پہ بیٹھا تے ہیں کہ ان کو اپنی کوتاہیاں اور کمزوریاں نظر نہیں آتیں ۔۔یہ اس سیاسی ہیرو کے ساتھ محبت نہیں اس کی سیاسی کیریئر کو تباہ کرنے مترادف ہے وہ نادانی میں کوئی ایسی سیاسی غلطی کر جاتا ہے کہ وہ اس کی راہ کی روکاوٹ بن جاتی ہے بلکہ اس کی راہوں کو مسدود کر جاتی ہے ۔۔ہمارے بڑے بڑے لیڈر اپنے دیوانوں کے ہاتھوں تباہ ہوگئے ۔اگر ان کی کمزوریوں کی نشاندھی ہوتی ۔۔ان کی درست سمت میں راہنمائی ہوتی تو وہ ناکام نہ ہوتے ۔۔جمہوریت کے تقاضے ہی ایسے ہیں کہ انسان خود اپنی پالیسیوں سے سیکھتا ہے ۔اس کے کارکن درست سمت میں اس کی راہنمائی کرتے ہیں یہی اس کے مخلص ہوتے ہیں ۔۔ہماری سیاست میں سنجیدگی نہیں آئی ۔اس لئے سیاست بچوں کا کھیل بن جاتی ہے ۔۔ہم جب پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں تو فرد سے دشمنی رکھتے ہیں اس کی درست اور مفید پالیسیاں بھی بری لگتی ہیں اگر کوئی درست کام کرتاہے تب ہم کہتے ہیں کہ کام اچھا ہے لیکن اس کے ہاتھوں نہ ہو جائے ۔۔ہمارے ملک میں لیڈرز آئے۔۔ قوم کو پالیسیاں دیں۔ لیکن اس کے تقاضے پورے نہ ہو سکے اس لئے کہ ہر ایک کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہوتی ہے ۔۔ہمیں چاہئے کہ کہ ہم اپنے راہنماؤں سے مخلص ہو جائیں ۔۔نہ آنکھیں بند کرکے ان سے محبت کریں نہ بلا وجہ نفرت کریں ۔۔ایک راہنما فرد نہیں ہوتا بلکہ وہ قوم کی عزت ہوتا ہے ۔۔قوم کا ناموس ہوتا ہے اس کی برائی کرنا گویا پوری قوم کی برائی کرنا ہے ۔۔اس برا کہنا پوری قوم کو برا کہنا ہے۔لوگ سوچتے نہیں کہ اگر ہمارا وزیر اعظم برا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم خود برے ہیں اگر وہ اچھا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم بحیثیت قوم اچھے ہیں ۔۔سوشل میڈیا جو زبان ہم ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے ہیں یہ کسی سنجیدہ قوم کی زبان نہیں ہے ۔۔مخالفت گالی تو نہیں بنتی ۔۔اور نہ گالی بننا چاہیے۔المیہ یہ ہے کہ ہم محبت کی بھی انتہا پہ ہیں اور نفرت کے بھی ۔۔یہ اعتدال نہیں کہلایا جا سکتا ۔۔بے اعتدالی آپے سے باہر کر دیتا ہے ۔انسان جذبات کی رو میں اتنا بہ جاتا ہے کہ کنارہ پانا مشکل ہو جاتا ہے ۔۔اور پھر ڈوبنا مقدر بن جاتا ہے ۔۔محبت کے تقاضوں میں احترام شامل ہونا چاہیے تاکہ محبوب کا مقام بلند ہو جائے ۔۔مہارے سیاسی لیڈروں میں محبوب بننے کی جو صلاحیت رکھتا ہے اس سے محبت کرنے والوں کو چاہیے کہ اس کو محبوب ہی رہنے دیں ایسا نہ ہو کہ اس کو صنم بنا کے پوجا پاٹ کرنا پڑے ۔۔اس کو خدمت کا موقع دیں ۔۔اس کو کام کرنے دیا جائے ۔اس کو آزمایا جائے ۔۔اس کا دست راست بن کر اس کی مدد کی جائے ۔۔کیونکہ یہ قوم کی احیاء کا مسئلہ ہے ۔۔یہ فرد کا نہیں قوم کا مسئلہ ہے ۔سیاسی محبتیں بے وفا ہوتی ہیں ہوس اقتدار ،لالچ ،حرص انسان کو اندھا کر دیتے ہیں ۔لازم ہے کہ سیاست میں محبت وفا کی حد تک جائز ہو ۔۔بے وفائی حرام ہو ۔۔تب سیاست عبادت بن جاتی ہے اور قوم کا خادم قوم کا غلام ۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔