چترال میں بڑھتے ہوئے خود کشیاں اور ان کی تدارک

وقاص احمد ایڈوکیٹ ۔۔۔۔۔

۔کیا سب کے بچوں کو ڈاکٹر انجینئر۔جج سی ایس ایس افسر یا وکیل بننا لازمی ہے ۔بلکل نہیں ہمیں مزدور مستری الیکٹریشن وغیرہ کی بھی ضرورت ہے میراایک بیٹا ہے میں ان کو ایک کام میں ماہر دیکھنا چاھتا ہوں خواہ ماہر پلستر کے مستری ماہر اور دیانتدار مزدور قابل دینی عالم ماہر فٹ بالر یا پولو پلیر ماہر ڈانسر ماہر ستار نواز ماہر ترکان ماہر موسیقار بچہ جو بھی کریں ان میں مہارت ہو لیکن بچوں کو نشے کے لعنت سے دور رکھانا چاہیے ۔میرا بیٹا اگر ایک دیانتدار مزدور بن جائے تو میں فخر مخسوس کرونگا اج کے والدین اپنے بچوں اور بچیوں کو کم نمبر انے پر طنعہ دیکر تنگ کرتے ہیں جسکی وجہ سے خود کشی کے واقعات بہت زیادہ ہوتی ہیں میں خود فسٹ اٸیر کا ال ڈاونر ہوں اوراۤج ایک وکیل اپکے سامنے ہوں اگر انسان یا ایک طالبعلم کا نمبر کم اۤ جائے یا فیل ہو جائے تو یوں سمجھے یہ ان کی کامیابی کا راستہ سیدھا کریگا اگر کوٸی انسان نمبر کم اۤنے کی وجہ سے خود کشی کرتا ہے توان کادنیا اورقیامت دونوں ختم ہو جاتی ہےاگر کسی کی بیٹی بالغہ ہواورایک مسلمان مرد سے شادی کرنا چاہتی ہے تو اس کو یہ کہکر روکنا کہ فلانہ کا تعلق فلانہ قوم سے ہے اس کے ساتھ شادی والدین کی بےعزتی ہوگی میں ان کو جہالت کہونگا اس وجہ سے اۤج کل خود کشیاں زیادہ ہوتی ہے اگر ایک شخص کی اپنی جتنی عزت ہوگی وہی رہے گی داماد یا سسر کی وجہ سے کسی کو لوگوں کے نظر میں عزت نہیں ہوگی اگرہم بیٹی کی شادی کے معاملے میں شریعت کو Fallow کرٸنگے تو خود کشیوں میں خاطر خواہ کمی ہو گی خاص کرکے علمائے کرام اگر چترال پولو گراونڈ میں ایک بڑا اجتماع منعقد کرکے مولانا طارق جمیل یا مولانا منظوراور دیگر علمائے کرام کے زریعے حطبہ دینگےاور شریعت کے مطابق نکاح اور شادی پر روشنی ڈالنگے اور خود کشی کےدنیاوی اوراخروی نقصانات کے بارے میں وغظ کرٸنگے۔اوراس میں شرکت کے لیے ہرگاوں کے امام مساجد اسلامیات کے اساتذہ کی شرکت کو یقینی بناٸنگےتو یقیناً کامیابی ھو گی اور اس اجتماع کے تمام انتظامات ڈی سی چترال ،ڈی پی او چترال اورکمانڈنٹ چترال کریں تو یہ اۤواز گھر گھر تک پہنچ جائے گی ۔ہمارے سکول کالچ میں اسلامیات کے اساتذہ اگر اپنے شاگردوں کو سکولوں اور کالجوں میں خود کشی کے دنیاوی اوراخروی نقصانات کے بارے میں لکچر د ینگے تو خود کشی میں کمی اۤٸیگی اس کے علاوہ علما اور تبلیغی حضرات بھی اس بابت کام کرینگے تو کٸی خاندان دنیا اور اخرت کی بربادی سے بچ جاٸنگے اور اسمعیلی مسلک سے تعلق رکھنے والے مشینری واعیظ مکی صاحبان اور اطرب کو بھی اس بابت اپنا فرض ادا کرنا ہوگا تو ہم خود کشی پر قابو پاٸنگے اگر کسی کی اولاد نفسیاتی مرض میں مبتلا ہو توابتدا ہی میں ان کا علاج کرانے سے ہم خود کشی جیسے لعنت سے بج سکتے ہیں اور ہر علاقے کے مقامی پولیس اور انٹلی جنٹس ادارے بھی ایسے لوگوں پر نظر رکھے جہاں خود کشی ہونے کے جانسس ہو اور اپنے ادارے کے ہیڈ کو اس بارے اطلاع دینا پڑے گا تاکہ ان کے لیےprecautionary measure لیا جا سکیں ۔ اور ہر سکول کالج مدرسہ اور مساجد میں دو ہفتے کے اندر خود کشی پر لکچر اور خطبہ دیا جائے توہم کافی حد تک خود کشی پر قابو پا لینگے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
ویب سائیٹ | + رپورٹس/ کالم

بشیر حسین آزاد، کا شمار چترال کے صف اول کے صحافیوں میں ہوتا ہے۔ آزاد صاحب چترال پریس کلب کے ممبر ہیں اور کئی عرصے سے آزاد صحافت کرتے ہیں، آزاد صاحب روزنامہ آئین پشاور کے لئے چترال کے بیورو چیف اور چترال ایکسپریس کے لئے ایڈیٹر انچیف کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔