سولرائزیشن منصوبے کی پیچیدگیاں

………محمد شریف شکیب………..

سولر سسٹم توانائی کا انتہائی باکفایت ذریعہ ہے۔ اس کی افادیت کے پیش نظر خیبر پختونخوا کی گذشتہ حکومت نے صوبہ بھر کے اسپتالوں، بی ایچ یوز، آر ایچ سیز اور مساجدکے علاوہ مصروف شاہراہوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا منصوبہ شروع کیا تھا تاکہ انہیں توانائی کی فراہمی بلاتعطل جاری رہے۔ شمسی توانائی کی ترویج کے لئے پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن میں شمسی توانائی کا الگ شعبہ قائم کردیا گیا۔جولائی 2015کے تباہ کن سیلاب میں چار اعشاریہ تین میگاواٹ کی پیداواری گنجائش والا ریشن بجلی گھر تباہ ہوگیا۔ جس کی بیشتر مشینری اب تک ملبے تلے دبی ہوئی ہے۔ ریشن پاور ہاوس سے سولہ ہزار خاندانوں کو بجلی فراہم کی جاتی تھی۔ بجلی گھر کی تباہی کے بعد اپر چترال کا پورا علاقہ ڈیڑھ سال تک تاریکی میں ڈوبا رہا۔ بجلی گھر کی فوری بحالی کے لئے احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے۔ صوبائی حکومت نے ریشن بجلی گھر کے متاثرہ صارفین کو ایچ ڈی ایف کی مالی امداد سے شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ پیڈو نے اس منصوبے کے لئے برق انجینئرنگ کنسلٹنٹس کی خدمات حاصل کیں۔ اورانہیں سولر پینلز کے حوالے سے سروے، تنصیب، ڈیزائن، نگرانی اور فائنل ٹیسٹنگ کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔دو سال قبل اپر چترال کی 25یونین کونسلوں میں 2750گھروں کو سولر سسٹم فراہم کیا گیایہ منصوبہ توقع سے زیادہ کامیاب رہا ہے۔ ایک گھر میں سولر سسٹم کی تنصیب کی لاگت 89ہزار760روپے آئی تھی۔یہ سسٹم نصب کرنے پر مجموعی طور پر 24کروڑ 68لاکھ روپے کی لاگت آئی۔ سیلاب سے بالائی چترال کا تاریخی گاوں ریشن سب سے زیادہ متاثرہ ہوا تھا۔ بجلی گھر کے علاوہ ٹرانسمیشن لائن، ٹرانسفارمرز، لوگوں کے رہائشی مکانات، باغات ، زرعی اراضی، تیار فصلوں، دکانوں، سرکاری اور نجی عمارتوں کو سیلاب بہا لے گیا تھا۔ایک ہزار مکانات پر مشتمل گاوں ریشن کو صرف 300سولر سسٹم دیئے گئے تھے۔ جبکہ سات سو گھروں کو محروم رکھاگیاجس پر ریشن والوں نے سولر سسٹم کا بائیکاٹ کردیا۔یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ چترال کے متاثرین کو حکومت کی طرف سے یہ سولر سسٹم بالکل مفت فراہم کیا گیا تھا لیکن متعلقہ ادارے کے حکام نے ہر سولر پینل کے عوض دس ہزار روپے وصول کئے۔جس کا ریکارڈ شاید حکومت کے پاس بھی نہیں ہے۔ ریشن کے متاثرین سیلاب نے اپنا احتجاج جاری رکھا۔ تو سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے جشن شندور کے موقع پرمتاثرین ریشن کی اشک شوئی کے لئے ایک ہزار سولر پینل فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ اس منصوبے پر 8کروڑ97لاکھ 60ہزار کی لاگت کا تحمینہ تھا۔ ریشن کے لئے مختص سولر پینلز کی تقسیم کا وقت آیا۔ تو مختلف حلقوں کی طرف سے روڑے اٹکائے جانے لگے ۔ پراجیکٹ ڈائریکٹر نے تجویز دی ہے کہ چونکہ چترال کو گولین گول بجلی گھر سے بجلی فراہم کی گئی ہے۔ اس لئے ریشن کے ایک ہزار سولر پینلز جنوبی اضلاع کو فراہم کئے جائیں۔ جبکہ دوسری طرف یہ سولر پینلز سوات منتقل کرنے کی کوششوں کا بھی انکشاف ہوا ہے۔جبکہ چترال کی ضلعی انتظامیہ نے ناظمین کے ساتھ مشاورت کے بعد ریشن کے حصے میں آنے والے سولر پینلز تمام یونین کونسلوں پر تقسیم کرنے کی تجویز دی ہے۔یوں ریشن کے متاثرین کو پھر محروم کیا جارہا ہے۔ جہاں تک گولین گول بجلی گھر سے چترال کو 30میگاواٹ بجلی فراہم کرنے کا تعلق ہے۔ اس کی منظوری وفاقی حکومت نے دی تھی۔ بجلی موجود ہے لیکن ریشن پاور ہاوس کے لئے بچھائی گئی چار اعشاریہ تین میگاواٹ والی ٹرانسمیشن لائن تیس میگاواٹ کی بجلی برداشت نہیں کر رہی۔ جس کی وجہ سے بجلی کی آنکھ مچولی روز کا
معمول ہے۔ جب تک نئی ٹرانسمیشن لائن نہیں بچھائی جاتی۔ یہ مسئلہ سالوں تک حل ہوتا نظر نہیں آتا۔یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کسی مخصوص علاقے کے لئے منظور ہونیو الا منصوبہ ہنگامی صورتحال کے بغیر دوسری جگہ منتقل نہیں کیا جاسکتا۔ریشن کے متاثرین نے اپنے حقوق کے حصول کے لئے شندور روڈ بلاک کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ متاثرین کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا سلسلہ نہ رکا۔ تو امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ چترال کے منتخب نمائندوں کو صورتحال کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اصل متاثرین کو ان کا حق دلانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔کیونکہ ایک گھر کا چراغ گل کرکے دوسرے گھر کو روشن کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ سوات ، بونیر، شانگلہ، کوہستان اور جنوبی اضلاع میں جہاں سولرائزیشن کی ضرورت ہے۔ حکومت ان کے لئے بھی منصوبہ شروع کرے۔لیکن پسماندہ علاقوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا سلسلہ اب بند ہونا چاہئے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔