پس وپیش            مفت تعلیم       

       ….تحریر : اے ۔ ایم ۔ خان….

تعلیم سب کا بنیادی اور آئینی حق ہے۔ اگر تعلیم معیاری اور ساتھ مفت بھی ہو تو وہ کون ہو سکتا ہے جو اِس بہتریں پیکج سے فائدہ نہ اُٹھا لے۔ دُنیا میں شاید کوئی ایسا والدین ہوسکتے ہیں جو اپنے بچوں کیلئے اچھا اور معیاری تعلیم نہیں چاہتا ہو۔  گوکہ پانچ سال سے سولہ سال تک،  آئین پاکستان کے آرٹیکل ۲۵ اے کے تحت،  مفت تعلیم دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

گزشتہ چند دنوں سے چترال میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ ہر اُستاد اپنا بچہ گورنمنٹ سکول میں داخل کروائیے۔ کیا یہ مناسب اور قابل عمل ہے؟ سوال پھر وہی آجاتی ہے، چاہے وہ اُستاد ہو یا وزیر، ہر کوئی چاہتا ہےکہ اُس کا بچہ اچھا اور معیاری تعلیم حاصل کرلے۔ اِس حوالے سے مشیر تعلیم خیبر پختونخوا ضیا اللہ بنگش اپنے ایک بیان میں لکھتا ہے کہ میں ’’ایک ایسا قانون بنانے کی کوشش کررہا ہوں کہ سرکاری اساتذہ اور افسران کے بچے لازمی سرکاری سکولوں میں پڑھیں تب ہی اُن کو درد اور احساس ہوگا۔ کیونکہ مجھ سمیت یہ سب اس سسٹم کا حصہ ہیں، اِس سسٹم کوسب نے مل کر ٹھیک کرنا ہے۔ سرکاری سکولوں میں تعلیم کا معیار بہتر کرنا ہے‘‘۔

اُستاد کو اس بات پر پریشان نہیں ہونا  چا ہیے کہ جب قاںون آجاتا ہےتو سارے سرکاری ملازمین ، اُستاد، وزیر، مشیر، سیکرٹری، اور انجنیر کو قاںون کے مطابق اپنا بچہ سرکاری سکول میں داخل کرنا لازمی ہوگا، اور سب کے بچے ایک ساتھ پڑھیں گے۔ اِس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ جب تعلیم کا وزیر، مشیر ، سیکرٹری اور اُستا د کا بچہ ایک دوسرے غریب کے بچے کے ساتھ پڑھتا ہے تو ’’احساس اور درد‘‘  سب کو ہوگا جس کا فائدہ یہ ہوگا کہ گورنمنٹ سکول پر توجہ ضرور ہوگی۔ اِس کا فائدہ نہ صرف سکول کا نظام بہتر ہوگا بلکہ سکول میں سیکھنے اورسکھانے کا عمل بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔  بنگش صاحب کی یہ بات بھی بجا ہے کہ سسٹم کو ٹھیک کرنے کیلئے’’سب‘‘ کو، نہ صرف اُستاد، بلکہ والدین ، کمیونٹی اور طالب علم کو مل کر کام کرنا ہوگا تب نظام تعلیم ٹھیک ہو سکتا ہے۔

حکومت کے اِس پالیسی کے حوالے سے اُستاد کیا کہتا ہے۔ ایک اُستاد نے کہا کہ میں اِس پالیسی کی بات ہونے سے پہلے اپنے بیٹے کو پرائمیری سکول بھیجج دیا، جوکہ میرے سکول کے قریب تھا،  دو دِن سکول جانے کے بعد اب وہ دوسرے سکول جانے سے بھی انکار کر رہا ہے۔ ایک دوسرے اُستاد سے  پوچھا ، کہ آپ خود اُستاد ہیں، اپنے بچے کو گورنمنٹ سکول کیوں نہیں بھیجتے؟ اُس کا کہنا تھا کہ میں اپنے بچے کو خود نہیں پڑھاتا ہوں، اور مجھے نہیں لگتا کہ میرا بچہ اُس سکول میں بہتر تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔ ایک اور اُستاد سے جب پوچھا تو اُس کا کہنا تھا کہ گورنمنٹ سکول کے سسٹم کو ٹھیک کرنا ہے اور اگر سسٹم ٹھیک ہوگا ہر کوئی اپنا بچہ وہاں پڑھنے کیلئے بھیج دے گا۔ ایک اور اُستاد کایہ کہنا تھا کہ میرا تین سال کا بچہ اکیلا سکول جا نہیں سکتا، میں خود اپنے ڈیوٹی کیلئے جاتا ہوں اور میرا شوہر اپنے ڈیوٹی پر، اگر گورنمنٹ سکول کے پاس ٹرانسپورٹ کا نظام ہو تو میں اپنے بچے کو سکول بھیج سکتا ہوں۔ ایک دوسرے اُستا د کا کہنا تھا کہ دو اُستاد پچاس سے زیادہ بچوں میں میرے بچے کو کیا پڑھا سکتے ہیں، اور میں نہیں چاہتا کہ میرے بچے کا بنیادی تعلیم کمزور ہو۔

سسٹم کو ٹھیک کرنا، مشیر تعلیم بشمول محکمہ تعلیم سے منسلک ہر خاص وعام کو معلوم ہے، کسی مشین یا گاڑی کو  ٹھیک کرنے کی طرح نہیں ہے جس میں مالی وانسانی وسائل، تحقیق اور وقت لگتا ہے۔ اگر گاڑی کا ایک ٹائرپنکچر ہوجاتا ہے اِسے پنکچر یا نئا ٹائر لگا دی جائے ، گوکہ اِس میں بھی پیسہ اور وقت لگتا ہے، ٹھیک ہو جاتا ہے۔ لیکن اِنسانی مشین خصوصاً سیکھنے اور سیکھانے کے سسٹم کو ٹھیک کرنے کیلئے وسائل اور وقت زیادہ درکار ہوتی ہے! جسطرح تعلیم ایک عمل کا نام ہے اِسی طرح تعلیمی عمل میں تبدیلی ایک خاص وقت، اور وقت کے ساتھ حکمت عملی،  طے کرنے کے بعد آجاتی ہے۔

خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے گزشتہ چھ سالوں میں ۱۳۰ بلین روپے تعلیم پر خرچ کر چُکا ہے، اور تعلیم کو بہتر کرنے کے حوالے سے کافی اقدامات لے چُکا ہے جس میں سکول میں سہولیات اور وسائل میں اضافہ ،  سکولوں میں داخلہ زیادہ کرنے  اور اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے حوالے سے خاطرخواہ کام ہو چُکا ہے۔ اب معیاری تعلیم کے حوالے سے ، اور خصوصاً پرائمیری تعلیم پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔

گورنمنٹ سکولوں میں سب سے بنیادی مسلہ ’’بنیادی تعلیم‘‘  کے حوالے سے ہے جس سے نہ صرف پرائمیری سکولوں میں مقیم اساتذہ کرام بلکہ وہ غریب لوگ جن کے بچے اِن سکولوں میں پڑھتے ہیں بہت زیادہ پریشان ہیں۔ دو کمروں پر مشتمل سکول میں دو اُستاد کسطرح پانچ کلاس پر مشتمل سکول میں سیکھنے اور سیکھانے کے عمل کو یقینی بنا سکتے ہیں؟  اور یہ بھی قابل بحث اور باعث غور مسلہ ہے کہ ملٹی گریڈ کلاس میں موثر سیکھنے اور سیکھانے کا عمل کتنا مفید ہو سکتا ہے، جوکہ دور جدید کے تقاضوں کے مطابق بچوں کیلئے موثر نہیں ہے۔

 خیبر پختونخوا ایلمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کا ۲۰۱۵ اور ۲۰۱۶ کے درمیان مرتب ہونے والے ایک رپورٹ کے مطابق ، صوبے میں کل ۱۷۵۸۲  پرائمیری سکول موجود ہیں جن میں ۱۰۳۴۸ مردانہ اور ۷۲۳۴ زنانہ سکول ہیں۔ چترال میں ۴۸۴ مردانہ اور ۱۷۲ زنانہ سکول ہیں، جن میں مجموعی طور پر لڑکوں کیلئے ۹۱۹  اور لڑکیوں کیلئے ۴۳۲ کمرہ جماعت موجود ہیں۔ اِن سکولوں میں ایک استاد کیلئے ۴۳   طالب علم، اور ایک اُستانی کیلئے ۲۲ طالب علمون کا تناسب بن جا تا ہے۔  اِس تناسب سے دیکھا جائے تو ایک پرائمیری سکول میں دو استاتذہ کرام کیلئے چھیاسی طالب علموں کو سنبھالنا اور ساتھ بچوں کو پڑھانا ایک بہت بڑے چیلنچ سے کم نہیں۔  پرائمیری سکولوں میں داخلہ کم ہونے، اور سیکھنے کے عمل میں بچوں کے عدم توجہ کا ایک وجہ بچوں کیلئے اُن چیزوں کی کمی ہے جو بچوں کیلئے پڑھنے میں دلپسپی کا باعث ہوتے ہیں جو بچوں میں اُن کے تخلیقی صلاحیتوں کو سامنے لانے میں مدد دیتے ہیں ۔ سکول میں گرمیوں اور سردیوں کے موسم کے لئے انتظامات، بجلی اور پانی کا انتظام، سکول جانے اور آنے کا فاصلہ، اور ایک شفیق اور ٹرین اُستاد کا ہونا بینادی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک اندازےکے مطابق ، حکومت ایک بچے کی تعلیم پر ہر ماہ  دو ہزار روپے خرچ کرتا ہے کیا یہ رقم معیاری تعلیم کیلئے کافی ہے؟ سیکھنے اور سیکھانے کے عمل میں سب سے بنیادی چیز نصاب ہے۔ کیا حکومتی سکولوں میں تعلیمی نصاب دور جدید کے مطابق اور ٹیچر کے بجائے طالبعلم کے گرد گھومتی ہے یا نہیں؟ کیا گورنمنٹ سکولوں میں اساتذہ کرام ، جو پرائمیری سکول میں پڑھاتے ہیں، درس و تدریس کے جدید انداز ، طریقوں اور فلسفہ تعلیم سے آراستہ ہیں؟ کیا حکومت پرائمیری سکول کے بچوں کیلئے سکول جانے اور آنے کیلئے ٹرانسپورٹ کا انتظام کرتا ہے؟  کیا سرکاری سکولوں میں کھیلنے،  اور کھیل کرکے سیکھنے کا طریقہ تدریس استعمال ہوتا ہے؟

 حکومت سرکاری ملازمیں کے بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کروانے کے حوالے سے قاںون سازی کرنے سے پہلے پرائمیری سکولوں میں بنیادی سہولیات اور معیاری تعلیم کو یقینی بنانے کیلئے سکولوں میں کلاس رومز، ہنرمند ساتذہ کرام، اےوی ایڈز،بنیادی سہولیات، اور خاص کر پرائمیری سکولوں کیلئے نصاب پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ سرکاری ملازم کا بچہ بھی سرکاری سکول میں معیاری تعلیم حاصل کر سکے۔

مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ملازم ہوسکتا ہے جو اپنے بچوں کیلئے حکومت کی طرف سے دی جانے والی مفت اور معیاری تعلیم سے انکار کرسکتا ہے۔ اگر حکومت گورنمنٹ سکولوں میں انرولمنٹ کو زیادہ کرنے پر توجہ دیتا ہے تو ۲۳ ملین بچوں کو سکول میں داخل کرنے پر کام کرے تو تعداد بڑھ سکتی ہے۔ اور انرولمنٹ کو زیادہ کرنے کیلئے اسلام آباد میں بچوں کیلئے مفت ٹرانسپورٹ کا نظام دینا کافی بہتر نتائج لا چُکا ہے، اس سے بھی داخلہ زیادہ کیا جاسکتا ہے۔

 سرکاری افسران اور اساتذہ کے بچوں کوسرکاری سکولوں میں داخلے کو لازمی کرنے سے پہلےسرکاری سکولوں میں بنیادی سہولیات، نصاب، اور تعلیم کے معیار پر پہلے توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔