کفایت شعاری کی پالیسی

………محمد شریف شکیب………
خیبر پختونخوا حکومت نے مختلف صوبائی محکموں میں ساڑھے پانچ ہزار غیر ضروری اسامیاں ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صوبائی محکموں کو اپنے ملازمین اور ان کے کام کی نوعیت سے متعلق تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ صوبائی حکومت کو توقع ہے کہ ان’’ بے فائدہ‘‘ اسامیوں کو ختم کرنے سے سالانہ پانچ ارب تک کی بچت ہوگی۔حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ بے فائدہ اسامیوں پر کام کرنے والوں کو بے روزگار نہیں کیا جائے گا۔ ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچنے والے ملازمین ریٹائراور ان کے عہدے ختم ہوجائیں گے دیگر اہلکاروں کو دوسری محکموں میں خالی اسامیوں میں کھپایا جائے گا۔ بے فائدہ اسامیاں مختلف نوعیت کی ہیں۔ ان میں سے بعض اسامیاں وقتی ضرورت کے تحت پیدا کی گئی تھیں۔ ضرورت ختم ہونے کے باوجود اسامیاں ختم نہیں کی گئیں۔ کچھ اسامیاں سیاسی لوگوں اور افسر شاہی نے اپنے لوگوں کو نوازنے کے لئے پیدا کی تھیں پھر انہیں مستقل حیثیت دی گئی۔ اگرچہ ان اسامیوں سے متعلقہ محکموں اور عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا تھا۔ لیکن کسی حکومت کی توجہ ان کی طرف نہیں گئی۔ ان میں بہشتی، ماشکی اور مشعل بردار جیسی مضحکہ خیز اسامیاں بھی شامل ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ مختلف حکومتوں نے اپنے دور میں سیاسی یا مالی مفادات کے لئے سرکاری محکموں میں تھوک کے بھاو لوگوں کو بھرتی کیا ہے۔ریلوے، پی آئی اے اور سٹیل مل جیسے قابل فخر اور منافع بخش ادارے ملازمین کی فوج ظفر موج کی وجہ سے آج خسارے میں چلے گئے ہیں اور قومی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی بجٹ کا تقریبا80فیصد ملازمین کی تنخواہوں پر خرچ ہوتا ہے۔ باقی ماندہ بیس فیصد میں سے پانچ فیصد کمیشن اور چوری کی نذر ہوجاتا ہے۔ دس فیصد جاری ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لئے رکھا جاتا ہے اور صرف پانچ فیصد نئی سکیموں کے لئے بچ جاتا ہے۔ قومی ترقی پر بجٹ کا پانچ فیصد خرچ کریں گے تو کیا خاک ترقی کریں گے۔ ہم نے آج تک جس شعبے میں حیران کن ترقی کی ہے وہ شعبہ آبادی میں اضافہ ہے۔ جب آبادی بڑھتی ہے تو وسائل گھٹنے لگتے ہیں جب وسائل بڑھانے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی تو پھر غربت کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے ۔شہری سہولیات کی فراہمی مشکل تر ہوجاتی ہے۔ آج خیبر پختونخوا کی 45فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی ہے۔ ان لوگوں کودن میں دو وقت پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا۔ ان کے بدن پر ڈھنگ کے کپڑے اور پاوں میں جوتے نہیں ہیں۔ گرمی اور سردی سے بچنے کا ان کے پاس کوئی انتظام نہیں۔ بچوں کو تعلیم دینا تو دور کی بات ہے وہ بیمار پڑجائیں تو ان کا علاج کرنے کی سکت بھی نہیں۔ جبکہ دوسری جانب قومی وسائل پر ہزاروں چہیتوں کو پالا جارہا ہے۔چند لوگ قوم کے ٹیکسوں سے جمع ہونے والے پیسوں سے عیاشیاں کر رہے ہیں۔صوبائی حکومت نے کفایت شعاری کی پالیسی اپنانے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔یہ قوم قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ ان قرضوں کا سود ادا کرنے کے لئے بھی مزید قرضے لئے جارہے ہیں ایسی صورتحال میں قومی وسائل پر کچھ لوگوں کو پالنے کایہ صوبہ مزید متحمل نہیں ہوسکتا۔ وفاقی وزیراطلاعات نے اسمبلی کے فلور پر کہا ہے کہ اپوزیشن کی درخواست پر شہباز شریف کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے لئے قومی اسمبلی کا جو اجلاس بلایاگیا ہے اس پر دس کروڑ روپے قومی خزانے سے خرچ ہوں گے۔ کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم ہاوس میں موجود آٹھ بھینسوں کی نیلامی کے لئے ایک کروڑ سے زیادہ کے اشتہارات دیئے گئے اور بھینسوں کی نیلامی پر 23لاکھ روپے ملے۔ ترقیاتی منصوبوں میں تاخیر کی وجہ سے تعمیراتی اخراجات بڑھ کر اس کی لاگت دوگنا اور تین گنا ہوجاتا ہے۔ منصوبے میں تاخیر کی وجہ سے قوم کو پہنچنے والے نقصان کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے اور ذمہ داروں سے اضافی اخراجات وصول کرنے چاہئیں۔ تمام صوبائی محکموں سے ان ہزاروں سفارشی ملازمین کو بھی گھروں کی راہ دکھائی جائے جو قوم پر برسوں سے بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ بچت اور کفایت شعاری کی پالیسی پر عمل درآمد میں کسی مصلحت کو آڑے آنے دیا گیا تو نہ صرف قوم بلکہ خود حکومت بھی مشکل میں پڑ سکتی ہے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔