ضمنی انتخابات کے حسب توقع نتائج

……….محمد شریف شکیب……..
خیبر پختونخوا میں ضمنی انتخابات کا مرحلہ مکمل ہوگیا۔ صوبے کے دس حلقوں میں سے دو میں انتخابات امیدواروں کی شہادت کے باعث ملتوی ہوئے تھے۔ ان میں سے پی کے 99کی نشست پاکستان تحریک انصاف اور پی کے 78پشاور کی نشست اے این پی کی امیدوار اور شہید ہارون بلور کی بیوہ نے جیت لی۔ باقی ماندہ آٹھ میں سے ایک نشست اے این پی کے صوبائی صدر امیر حیدر ہوتی جبکہ سات نشستیں تحریک انصاف نے خالی کی تھیں سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک، سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر ، گورنر شاہ فرمان، صوبائی وزیر ڈاکٹر امجداورڈاکٹر حیدر علی کی چھوڑی ہوئی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے۔ سوات کی ایک نشست مسلم لیگ ن جبکہ دوسری نشست اے این پی لے اڑی۔ حیدر ہوتی کی نشست پی ٹی آئی کے حصے میں آئی۔ ڈیرہ اور نوشہرہ کی چاروں نشستیں پی ٹی آئی نے دوبارہ حاصل کرلیں۔ ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کو مجموعی طور پر دس میں سے چھ نشستیں ملیں ۔ تین اے این پی اور ایک نشست مسلم لیگ ن کو ملی۔ جبکہ قومی اسمبلی کی اکلوتی نشست جسے وزیراعظم عمران خان نے خالی کی تھی متحدہ مجلس عمل جیت گئی۔پی کے 78پشاور کی نشست پر اے این پی کی کامیابی جہاں پی ٹی آئی کے رہنماوں کی عدم دلچسپی کا دخل تھا۔ وہیں ہارون بلور کی بیوہ کو ہمدردی کے ووٹ بھی ملے تھے۔ لیکن پی کے 71کی نشست پر اے این پی کی کامیابی سراسر تحریک انصاف کی غلط منصوبہ بندی اور اقرباء پروری کا نتیجہ ہے۔ کامیاب امیدوار صلاح الدین کا تعلق بھی پی ٹی آئی سے ہی تھا۔ اس نے ٹکٹ کے لئے درخواست بھی دی تھی لیکن موروثی سیاست کے حامیوں نے مضبوط امیدوار کو ٹکٹ دینے کے بجائے گورنر کے بھائی کو نامزد کردیا۔تیسرے نمبر پر زیادہ ووٹ لینے والے آزاد امیدوار کا تعلق بھی پی ٹی آئی کے ساتھ تھا۔ سماجی رابطوں کی ویپ سائٹ پر دلچسپ تبصرے ہورہے ہیں۔ کسی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے پی ٹی آئی کو ہرادیا۔ تو کوئی کہنا ہے کہ اہل پشاور نے موروثی سیاست کو دفن کردیا۔ کسی دل جلے نے لکھا کہ وزیراعظم عمران خان نے جب گورنرکو فون کرکے پی کے 71کے نتائج کے بارے میں پوچھا تو گورنر نے یہ کہہ کر فون بند کردیا کہ ’’آپ کی آواز صحیح نہیں آرہی۔ پخ پخ کا شور سنائی دیتا ہے‘‘۔اگرچہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں پی ٹی آئی کو اب بھی دو تہائی اکثریت حاصل ہے تاہم ضمنی انتخابات میں چار نشستوں سے محروم ہونا پارٹی قیادت کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ حکمران جماعت کی مقبولیت میں کمی کی فوری وجہ پٹرول، بجلی، گیس اور سی این جی کی قیمتوں میں اضافہ اور ہوشرباء مہنگائی ہے تاہم پارٹی کے اندر اختلافات اور اقرباء پروری کی روایت بھی شکست کی اہم وجہ ہے۔ اگر ضمنی انتخاب میں اے این پی کو تین نشستیں ملی ہیں تو وہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ عوامی نیشنل پارٹی نے اس دوران کوئی غیر معمولی کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ بلکہ پی ٹی آئی کے بیشتر ووٹر مختلف وجوہات کی بناء پر ووٹ ڈالنے گھروں سے نکلے ہی نہیں۔ اور جو لوگ پولنگ اسٹیشن آئے انہوں نے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے جان بوجھ کر مخالف امیدوار کو ووٹ دیا۔حلقے کے لوگوں کا شکوہ ہے کہ گورنر اور ان کا خاندان پی کے 71میں رہتا ہی نہیں۔ اس وجہ سے ان کے علاقے کے عوام کے ساتھ سماجی تعلق کا فقدان ہے جو ذالفقار خان کی ناکامی کا بڑا سبب ہے۔صلاح الدین تو چند ہفتے قبل ٹکٹ نہ ملنے پر تحریک انصاف کو چھوڑ کر اے این پی میں شامل ہوا تھا۔ اگر پارٹی کے مفاد میں انہیں ٹکٹ دیا جاتا تو وہ شاہ فرمان سے زیادہ ووٹ لے سکتا تھا۔ہم نے انہی سطور پر قبل ازیں بھی گذارش کی تھی کہ عوام اب سیاسی طور پر باشعور ہوچکے ہیں۔ وہ موروثی سیاست کو پسند نہیں کرتے۔ تحریک انصاف کو باریاں لینے اور سیاست کو خاندانی جاگیر بنانے کے خلاف آواز اٹھانے پر عوامی پذیرائی ملی تھی۔ اپنی ہی پالیسیوں سے انحراف کریں گے تو اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑے گا۔یہ درست ہے کہ ٹکٹوں کا فیصلہ پارٹی چیئرمین عمران خان خود کرتے ہیں۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ عمران خان پورے ملک میں قومی اسمبلی کے ساڑھے تین سو اور صوبائی اسمبلیوں کے آٹھ سو حلقوں میں سب لوگوں کو جانتے ہوں گے۔انہوں نے جو کمیٹیاں بنائی ہوتی ہیں وہی ٹکٹوں کے لئے امیدواروں کا چناو کرکے نام حتمی منظوری کے لئے چیئرمین کو بھیجتے ہیں۔بہتر ہوگا کہ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کوئی سینٹرلائزڈ سسٹم وضع کرے۔ تاکہ اپنوں میں ریوڑیاں بانٹنے والوں سے خود پارٹی ، عوام اور ورکروں کی جان چھوٹ جائے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔