داد بیداد ….پریشر کو کر اور پاکستانی معا شرہ 

………ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

پریشر کو کر صدیق سالک کا ناول ہے اس میں علا متوں کے ذریعے معا شرے میں دبے ہوئے جذ بات کو سامنے لا یا گیا ہے آج پا کستانی معا شرہ پریشر کو کر والی صورت حال سے دو چار ہے چاروں طرف سے دباؤ ہے اندر لا واپک رہا ہے آتش فشان پھٹنے اور آتشین لاوا بہنے کا انتظار ہے یہ سازش ، سازش والا نظریہ نہیں یہ تصویر کا منفی پہلو نہیں بلکہ یہ کیمرے سے لی گئی سچی تصویر ہے جو پر نٹ ، الیکٹرا نک اور سو شل میڈیا کے ذریعے دکھا ئی جا رہی ہے اس وقت پا کستان اور بیرونی دنیا کے ٹیلی وژن چینلوں میں سے 38چینلوں کو پا کستان مخا لف پر و پیگنڈے کے لئے خریدا گیا ہے ملک کے اندر اور ملک سے با ہر 61اخبارات ایسے ہیں جنکو پا کستان میں عدم استحکا م کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے ملک کے اندر اور باہر سو شل میڈیا کا پو را کہکشان، اس کہکشان کے تمام ستارے اپنے چاند اور سورج کو لیکر پا کستان میں انتشار پھیلا نے کا کا م کر رہے ہیں چار باتوں پر زور دیا جارہا ہے پہلی بات یہ ہے کہ پا کستان کے سیا سی لیڈر کرپٹ ، بد عنوان ، چور اور ڈر پوک ہیں دوسری بات یہ کہ پا کستان کی سول سر وس بد عنوان ، چور ، بااہل اور بد کر دار ہے تیسری بات یہ ہے کہ پا کستان کی سول سو سائیٹی کرپٹ ہے این جی اوز بد عنوان ہیں اور دشمن کے ایجنٹ ہیں چو تھی بات یہ ہے کہ پا کستاکا مذہبی طبقہ ، دینی جما عتوں کا طبقہ ،مدارس اور مساجد کا سلسلہ ، علماو مشائخ کی جما عت بد عنوان اور بد کر دار ہے یہ چار باتیں صبح و شام ، رات دن ، پھیلا ئی جارہی ہیں ان باتوں کو پھیلا نے کا مقصد 21کروڑ کی آبادی کو ما یوسی کی طرف دھکیلنا ہے عوام کو اپنی قیا دت سے ما یوس کر نا ہے لو گوں اور لیڈروں کے در میان ہر سطح پر ما یو سی پھیلا نا ہے اور ناامیدی کو ہوا دینا ہے اگر ایک ہفتہ کے لئے وقت نکال کر پا کستان کے 14منتخب ٹی وی چینلوں کے ٹاک شوز دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ملک میں جن لو گوں کو سنیئر تجزیہ کا ر ، صحا فی ، ادیب اور دا نشور کہا جا تاہے ان میں سے45 اہم ترین شخصیات کی خد مات ما یو سی پھیلا نے کے لئے حا صل کی گئی ہیں یہ شخصیات اپنی عمر ، اپنے تجربے اور پا کستان کے عوام میں اپنی مقبو لیت کا فائدہ اٹھا تے ہوئے عوام میں انتشار اور ما یو سی پھیلا نے کا کام کر تی ہیں بد حواسی اور بد ظنی پھیلانے کا کام کر تی ہیں اس قسم کا پرو پیگینڈہ کسی بھی ملک کا نشریا تی یا اشا عتی ادارہ اپنے ملک کے خلا ف نہیں کر سکتا یہاں تک کہ امریکہ میں بھی سی این این ، فوکس نیوز اور سکائی نیو ز کو امریکی معاشرے کے خلا ف انتشار پھیلا نے کی آزادی نہیں دی گئی حا لانکہ امریکہ دنیا میں جمہو ریت ، انسانی حقوق اور اظہاار رائے کی آزادی کا سب سے بڑا علمبردار ہونے کا دعویٰ کر تاہے ایسی ہی مثال ہمارے پڑوس میں واقع ملک بھا رت کی ہے آپ کیمرے کو زوم (Zoom)کر کے مزید تحقیق کریں معا ملے کی چھان پھٹک کر کے دیکھیں تو 5بڑے حقا ئق سامنے آئینگے پہلی حقیقت یہ ہے کہ پا کستانی معا شرے میں توڑ پھوڑ کا عمل 1978ء میں شروع ہو ا جب فرقہ ورانہ تنظیمیں بنائی گئیں ان کو تر بیت دی گئی ، اسلحہ دیا گیا بڑے پیمانے پر وسائل دیئے گئے اس کے بعد 1983ء میں نسل پر ست تنظیموں کو بھی تر بیت دی گئی اسلحہ دیا گیا مال اور دو لت کا انبار ان کے قد موں میں ڈال کر ڈھیر کر دیا گیا ملکی ادارے اس تباہی اور بر بادی کو خا مو شی کے ساتھ دیکھتے رہے 1988ء میں جمہو ری حکو مت آئی تو ملک میں 23انتہا پسند تنظیمیں کام کر رہی تھیں سب مسلح تنظیمیں تھیں سب کا ایجنڈا ملک میں انتشار پھیلا نا تھا اگر چہ ان میں سے کچھ تنظیموں کو کا لعدم قرار دیا گیا مگر ان کے لیڈروں کو دوسرے نا موں سے تنظیمیں بنا کر کا م کو جاری رکھنے کی اجا زت دے دی گئی یہ وہ نقشہ ہے جو نو شتہ دیوار کہلا تا ہے سامنے نظر آتا ہے اور بالکل واضح ہے مشرقی پا کستان میں اس طرح کے انتشار کی فصل 1956ء میں کا شت کی گئی1970ء میں فصل پک کر تیا ر ہو گئی اور دسمبر 1971میں نتیجہ سامنے آگیا پلٹن میدان کی وہ تصویر یو ٹیوب پر آج بھی مو جود ہے آج پھر پا کستا نی معا شرہ پریشر کو کر کا منظر دکھا رہا ہے پرنٹ اور الیکڑا نک میڈ یا ہماری سیا سی قیا دت ، ہماری بیورو کریسی ہمارے علما ئے دین اورہمارے مشا ئخ عظام کے خلا ف جو پر و پگینڈا کرا رہا ہے یہ ٹوٹ پھوٹ کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے سو شل میڈیا پر ہمارے ملک ، ہماری قوم اور قو می لیڈروں کے خلا ف جو غلیظ مواد لا یا جا رہا ہے یہ پا کستانی معا شرے پر دشمن کا حملہ ہے اس کا سد باب کرنے والا کب پیدا ہو گا اس کا علم کس کو نہیں بقول علا مہ اقبال ؂
ہزاروں سال نر گس اپنی بے نو ری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہو تاہے چمن میں دیدہ ور پیدا

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔