فکروخیال…..رانگ نمبر

کل ایک دوست نے انتہائی تشویشناک کہانی سنائی ، کہتے ہیں شام کو جب گھر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں میرا بیٹا جوکہ ابھی صرف تیں سال کا ہے کے کھلونے سائیکل اورموٹر وغیرہ گھر کے فرش پر ٹوٹے بکھرے پڑے تھے پوچھنے پر معلوم ہُوا کہ کل چونکہ عدالت کی جانب سے توہیں رسالت معاملےکے فیصلے کے بعد تحریک لبیک کےمشتعل کارکنان کی جانب سےموٹر سائیکل ، گاڑیوں اور املاک کی تھوڑ کا سارا منظر جب دن بھر میڈیا کا زینت بنا رہا اسے دیکھ کر اس معصوم زہن پر کچھ ایسا اثر ہُوا کہ اس  نے بھی اپنے سارے کھلونے لبیک کے کارکنان کی دیکھا دیکھی مارمار کرڈھیر کردیئے،پورا فرش ان کھلونون کے ٹکڑون سے بھرا پڑا تھا ۔دوست کا کہنا تھا کہ معصوم بیٹے کی اس عجیب حرکت پر ششدر رہ گیا ، رات کا کھانا مجھ سے نہیں کھایا جاسکا اور پوری رات اسی سوچ میں نیند نہ آئی کہ اخر ہم کس طرح معاشرے میں رہ رہے ہیں ۔دوست کی زبانی یہ سب کچھ سن کر میں بھی چکرا سا گیا۔سوال یہ ہے مذہب کے نام پر قومی املاک اور غریب لوگوں کے موٹرسائیکل گاڑیوں اور دیگر اثاثون کو اگ لگا کر ہم کیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو خوش کررہے اور چونکہ اسلام کا مطلب ہی جب سلامتی کا دین ہو امن کا مذہب ہو تو یہ ہم کیا کررہے ہیں، عدالت کا فیصلہ  کہتوہیں رسالت ہوئی ہی نہیں پھر بھی سرعام املاک کو آگ لگانا کونسے اسلام اور کونسے دین میں لکھا ہے،سلامتی کے دین کو امن کے مذہب کو اس طرح کرکے پیش کرنے کا مقصد ہی کیا ہے ؟اسلام میں شرپسندی اور تھوڑ پھوڑ کی قطعا گنجائش نہیں ،پُرامن احتجاج سب کا حق ہے مگر اس طرح کا جلاو گھیراو جائز نہیں، انہیں ہم مذہب کے نام پررانگ نمبر ہی کہہ سکتے ہیں۔ اخر ہم کس سوچ کو پروان چڑھا رہے ہیں اور اپنے بچوں کو کیا پیغام دے رہے انہیں کیا سکھا رہے کہ جس سے ان میں تھوڑ پھوڑ کی سوچ بچپن سے ہی پروان چڑرہی ہے اور ہم حیران و پریشان تکتے رہ جاتے ہیں ۔بقول حسن نثار “عجیب عاشق رسول ہیں توہیں رسالت نہ ہونے خوش ہونے کے بجائے طیش میں آجاتے ہیں ،شکر ہے توہیں رسالت ہوئی ہی نہیں ” ،تشیوشناک امر یہ بھی ہے کہ  ان جیسے واقعات کی دن بھر میڈیا کوریج دی جاتی ہے  ،کیا ہم بطور میڈیا رانگ نمبر نہیں دکھارہے ؟ریٹنگ بڑھانے کی چکرمیں اچھے برے کی تمیز سے پرے من،اظر، انتشار کے مناظر ،بربادی کے مناظر دیکھانے سے تو چینل ریٹنگ بڑھے گی مگر معاشرے کے کروڑوں انسانوں کے زہنوں پر جو بُرے اثرات سرائیت کر جائیں کوئی بات نہیں ،قوم کا مستقبل ان کی دیکھا دیکھی کیا کچھ سیکھ رہا ہے اس سے کسی کو کیا غرض،اسی طرح معاشرے کی بربادی ان پہنچتی ہے ۔کہتے ہیں کہ امریکہ جسیے ترقیافتہ ملک میں بھی تقریبا پانچ ہزار کے لگ بھگ  گنگ گروپس موجود ہیں ،ڈاکے اور لوٹ مار کی وارداتیں معمول کا حصہ ہیں  روزانہ سینکڑون کی تعداد میں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں مگر ان واقعات میں سے کسی ایک واقعے کو بھی میڈیا رپورٹ ہی نہیں کرتا ،سنسنی پھیلانے اور عوام کو خوف میں مبتلا کرنے والے واقعات میڈیا کی زینت نہیں بنتے میڈیا زمہ داری سے اپنا کردار ادا کرتا ہے، ہماری طرح بریکنگ نیوز نہیں چلایا جاتا اور ایسے واقعات پر دن بھر کمنٹری نہیں ہوتی ،وقت کا تقاضا یہ ہے ان جیسے واقعات کی میڈیا کوریج کم سے کم ہو،ہم سب پر فرض ہے کہ عدالت کے فیصلون کا احترام کریں اور ہمارے الیکٹرانک میڈیا کو بھی اپنے کردار پر سوچنے اور نظرثانی کی  کی ضرروت ہے اور حکومت وقت کو ان معاملات پر ایک واضح پالیسی تشکیل دینے اور میڈیا ہاوسز کو اس کے تابع ہونے کا قانون وضع کرنا چاہئے وگرنہ سنسنی پھیلانے ، خوف و دہشت کی ترویج کرنے اور انہیں براہ راست دکھانے پر عوام خصوصا بچون کے دل و دماغ پر جو خوفناک اثرات مرتب ہورہے ہیں یہ ایک ملکی المیہ بن چکا جس سے نمٹنے کی ضرورت ہے ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔