معدنیات کی لیز پر پابندی

خیبر پختونخوا حکومت نے معدنیات کی لیز جاری کرنے پر پابندی لگادی ہے۔ محکمہ معدنیات میں شفافیت لانے کے پروگرام کے تحت تمام لیز ہولڈرز کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے نام کی لیز دیگر لوگوں کو فروخت کرنے یا ٹھیکے پر دینے سے احتراز کریں بصورت دیگر ان کی لیز منسوخ کی جائے گی۔ صوبائی حکومت نے معدنیات کی لیز فروخت کرنے کی شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے خفیہ ایجنسیوں کو بھی قانون شکن عناصر کے خلاف متحرک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ خیبر پختونخوا اور فاٹا کو قدرت نے معدنی دولت سے مالا مال کردیا ہے۔ ہمارے ان پہاڑوں میں سونے، چاندی، زمرد، یاقوت، جبسم، اینٹی منی، سنگ مرمر اور سینکڑوں اقسام کی قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں اور معدنیات کی اتنی دولت چھپی ہے کہ اگر ان سے مناسب طریقے سے استفادہ کیا جاتا تو آج پاکستان ترقیافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہوتا۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ان قیمتی معدنی وسائل کو ترقی کے لئے بروئے کار لانے کی کسی بھی حکومت نے منصوبہ بندی نہیں کی۔ چترال کے علاقہ گرم چشمہ میں قیمتی دھات شیلائٹ کا پورا پہاڑ کھڑا ہے۔ اس دھات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ہزار ڈگری سینٹی گریڈکی حدت میں گرم ہوتا ہے۔ اسی سخت خاصیت کی وجہ سے خلاء میں بھیجے جانے والے راکٹوں پر شیلائٹ کی پالش کی جاتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل شیلائٹ کا کھوج لگانے کے لئے ایک پراجیکٹ شروع کیا گیا۔ محکمہ معدنیات کے چند اہلکار گرم چشمہ میں شیلائٹ ایکسپوریشن پراجیکٹ پرتعینات رہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پہاڑ میں شیلائٹ کی مقدار معلوم کرنے کے لئے ماہرین کی ایک ٹیم بھیجی گئی۔ ٹیم کے ارکان خود گرم چشمہ آفس میں سستانے کے لئے بیٹھ گئے اور چوکیدار کو پہاڑ سے سمپل لانے بھجوادیا۔ چوکیدار پہاڑ سے گرا ہوا ایک پتھر اُٹھا لایا۔ ماہرین نے اس کا تجزیہ کیا تو اس میں شیلائٹ کی اتنی مقدار پائی گئی کہ دنیا کے کسی ملک میں پتھر میں شیلائٹ کی اتنی مقدار نہیں پائی جاتی۔ پراجیکٹ کے پیسے تنخواہوں پر پورے ہوگئے تو اس کی فائل بھی بند کردی گئی اور پھر کسی نے مڑ کر شیلائٹ کے پہاڑ کی طرف نہیں دیکھا۔جس سے معدنی وسائل کی اہمیت کے احساس کے حوالے سے ہماری غفلت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ معدنیات نکالنے کے لئے لیز جاری کرنے کا کوئی جامع قانون موجود نہیں۔ کیونکہ یہ کسی حکومت کی ترجیح ہی نہیں رہی۔ چترال، دیر، سوات، شانگلہ، بونیر، کوہستان، بٹگرام اور قبائلی علاقوں میں قیمتی معدنیات نکالنے کی لیز چند لاکھ روپے میں ایسے لوگوں کو دیا جاتا ہے جن کے پاس معدنیات نکالنے کی مشینری ہوتی ہے نہ ہی کوئی ٹیکنالوجی ہوتی ہے۔ برسوں پرانے طریقے سے بورنگ اور بلاسٹ کرکے معدنیات نکالنے کی کوشش میں بیشتر قیمتی ذخائر ضائع ہوتے ہیں۔ ایک شخص پندرہ بیس لیز اپنے نام پر لے کر آگے دوستوں، رشتہ داروں میں تقسیم کرتا ہے یا اپنا منافع نکال کر بیچ دیتا ہے۔ جن علاقوں میں یہ معدنیات پائی جاتی ہیں ان علاقوں کو کوئی رائلٹی نہیں دی جاتی۔یہی حال جنگلات کا ہے۔ پاکستان کے مجموعی رقبے میں جنگلات صرف چار فیصد علاقے میں موجود ہیں۔ اور ٹمبر مافیا گذشتہ کئی عشروں سے ان جنگلات کا صفایا کرنے میں مصروف ہے۔ ملاکنڈ اور ہزارہ ڈویژن کے علاوہ قبائلی علاقوں کے گھنے جنگلات اب چٹیل پہاڑوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ چند منظور نظر لوگوں کو رائلٹی دے کر ٹمبر مافیا قیمتی عمارتی لکڑی اندرون اور بیرون ملک سمگل کرنے میں مصروف ہے۔پی ٹی آئی کی حکومت نے بلین ٹری سونامی کا منصوبہ تو شروع کیاہے تاہم ٹمبر مافیا اسے ناکام بنانے کے لئے کوشاں ہے ۔ صوبائی حکومت نے اندھا ریوڑیاں بانٹنے کی طرز پر معدنیات کی لیزکے کاروبار کو روکنے کا فیصلہ کیا ہے جسے دیر آید درست آید کے مصداق کہا جاسکتا ہے۔تاہم سب لیزنگ پر پابندی مسئلے کا حل نہیں۔ صوبائی حکومت کو معدنیات کی دولت کو قومی ترقی کے لئے بروئے کار لانے کے لئے جامع قانون سازی کرنی چاہئے اور معدنیات کی کانوں کی بندربانٹ کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہئے۔ سیاسی سپورٹروں کو نوازنے کے لئے قومی دولت لٹانے کا یہ کھیل قوم کو بہت مہنگا پڑ چکا ہے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔