حاجی عبدالوہاب کون تھے؟

لاہور (عبدالمجید ساجد)ہندوستان کے مسلمانوں پر ایک وقت ایسا بھی آیا جب ان کی اپنی زمین ان پر تنگ ہوئی اور وہ دین سے بھی دور ہو گئے۔ انہی حالات میں تقریبا ایک صدی قبل متحدہ ہندوستان کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا محمد الیاس ؒ نے دہلی سے باہر بستی نظام الدین سےدعوت اسلام کا کام شروع کیا۔ آپ کا معمول تھا کہ آپ شہر کے بازاروں، گاوں اور قصبوں میں جاتے اور مسلمانوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے۔ مساجد اور تعلیم کے حلقوں سے جڑنے کی ترغیب دیتے تاکہ وہ اس طرح ایمان ، نماز اور اسلام کے بنیادی مسائل سیکھیں۔ان بنیادی مسائل اور اسلامی آداب کو خود سیکھنے، عملی طور پر اپنانے اور دوسروں کو سکھانے کے لیے ان سے مطالبہ کرتے تھے۔ آپ نے یہ تبلیغ بھی کی کہ اپنے خرچ پر مہینہ میں تین دن، سال میں چالیس دن اور عمر بھر میں چار ماہ کے لیے اللہ کی راہ میں نکلیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس بزرگ کی مخلصانہ محنت میں برکت فرمائی اور ان کے ارد گرد پاک سیرت اہل ایمان افراد کی ایسی جماعت مجتمع ہو گئی جن کا تعلق معاشرے کے ہر طبقے سے تھا، اس میں تاجر، کاشتکار، سرکاریاور غیر سرکاری ملازم، اساتذہ، طلبہ اور مزدور وغیرہ سب ہی تھے۔ انہوں نے واضح کر دیا تھا کہ کسی قسم کے فروعی اور فقہی مسائل کو نہ چھیڑا جائے اور ہر شخص نے جو بھی مسلک اختیار کیا ہوا ہے اسی پر عمل کرے ،پوری توجہ اور اہتمام سے ایمان، یقین، اخلاص، نماز، علم، ذکر، مسلمانوں کے حقوق کا خیال رکھے،اوردعوت اور خروج فی سبیل اللہ میں مصروف رہے۔اللہ تعالیٰ نے اس بزرگ کی محنت میں ایسی برکت عطاء فرمائی کہ جو دعوت ایک بستی سے شروع ہوئی تھی وہ ترقی کرتے کرتے ایک عالمی اور بین الاقوامی دعوت و تحریک بن گئی۔ حاجی عبدالوہاب نے 1944 میں تبلیغی جماعت میں شمولیت اختیار کی اوربعد ازاں جماعت کے چوتھے امیر بنے۔بچپن میں ہی فکری اور مذہبی طور پر توانا سوچ کے حامل تھے۔ اس لیے نوجوانی کی عمر میں وہ مجلس احرار اسلام کیلئے کام کرتے رہے اور تقسیم کے بعد بورے والا میں مجلس کے امیر بھی رہے۔ انہوں نے 1944 میں تبلیغی جماعت کے امیر مولانا الیاس کاندھلوی سے ملاقات کی اور اس کے بعد اپنی پوری زندگی اللہ کے دین کیلئے وقف کردی۔ حاجی عبدالوہاب یکم جنوری 1923 کو یا بعض روایات کے مطابق 1922 کے آخر میں متحدہ ہندوستان کے دارالحکومت دہلی کے ضلع کرنال میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق راجپوتوں کی ذیلی ذات (رنگڑ، رانگڑ) سے تھا۔ انہوں نے اسلامیہ کالج لاہور سے گریجوایشن کی جس کے بعد وہ انگریز سرکار میں تحصیلدار بھرتی ہوگئے۔تقسیم ہند کے بعد نوکری چھوڑی، اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان کی طرف ہجرت کی اورچک 331ای بی (ٹوپیاں والا) بورے والا ،ضلع وہاڑی منتقل ہوئے اور یہیں سے تبلیغی جماعت میں شامل ہوئے۔ اللہ سے توکل کا ایسا پختہ یقین اپنے دل میں جگایا کہ اس کی روشنی سے دنیا بھر میں کروڑوں دلوں نے تسکین پائی۔ آپ کے ہاتھوں جلائے ہوئے دئیے دنیا بھر میں اسلام کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔ راقم کا تعلق ان کے قریبی گاوں سے ہے وہاں کے بزرگوں کا یہی کہنا ہے کہ مولانا اوائل عمری سے ہی خاموش طبع اور پاک سیرت تھے انہیں وہاں مولانا رائو عبدا لو ہاب کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ آپ مولانا الیاس کاندھلوی کے ان پہلے 5 ساتھیوں میں بھی شامل تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی اللہ کے دین کی تبلیغ کیلئے وقف کی اور اللہ سے محبت کا حق ادا کیا۔ مولانا الیاس کاندھلوی جنہوں نے 1927 میں تبلیغی جماعت کی بنیاد رکھی تھی اور اپنے انتقال (1944) تک جماعت کے امیر رہے۔بانی کے انتقال کے بعد مولانا یوسف کاندھلوی 1965 تک، ان کے بعد مولانا انعام الحسن کاندھلوی 1995 تک تبلیغی جماعت کے امیر رہے۔ مولانا انعام الحسن کاندھلوی کے انتقال کے تقریباً 2 ماہ بعد حاجی عبدالوہاب 10 جون 1995 کو تبلیغی جماعت کے امیر مقرر ہوئے اور آج (18 نومبر 2018) اپنے انتقال سے پہلے تک جماعت کے امیر رہے۔ پاکستان میں تبلیغی جماعت کی امارت کا جائزہ لیا جائے تو سب سے پہلے امیر محمد شفیع قریشی تھے جن کی 1971 میں رحلت کے بعد حاجی محمد بشیر صاحبت پاکستان میں تبلیغی جماعت کے دوسرے امیر مقرر ہوئے۔ 1992 میں حاجی بشیر کے انتقال پر ملال کے بعد حاجی عبدالوہاب تبلیغی جماعت کے پاکستان میں امیر مقرر ہوئے اور بعد ازاں مولانا انعام الحسن کاندھلوی کے انتقال کے بعد 1995 میں دنیا بھر میں تبلیغی جماعت کے امیر بنے۔جس کے بعد انہوں نے جس لگن اور شوق سے تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ اپنی زندگی کے 75سال انہوں نے ایک ہی ادارے اور ایک ہی مقصد پر صرف کئے اور اپنے عملی کردار سے بہترین نتائج حاصل کئے جو بہت کم کسی کے حصے میں آئے۔ اکتوبر 2013ء کو تحریک طالبان پاکستان اور پاکستان کے درمیان امن مذاکرات کے لیے محمد عبد الوہاب کا نام بطور سربراہ لویہ جرگہ تجویز کیا گیا تھا۔ فروری 2014ء میں طالبان نے محمد عبد الوہاب،سمیع الحق،ڈاکٹر عبد القدیر خان کا نام تجویز کیا تھا کہ وہ پاکستان اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات میں بطور سہولت کار کردار ادا کریں۔وہ ایک پر امن پاکستان کے حامی تھے، انہوں نے ساری زندگی امن اور بھائی چارے کا پرچار کیا اور شدت پسندی کی ہر طرح سے مذمت کی۔ تبلیغی جماعت کے امیر حاجی عبدالوہاب کا شمار ان ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کی تبلیغ اور ترویج کے لیے وقف کر دی تھی۔حاجی عبدالوہاب گزشتہ کئی سالوں سے علیل تھے اور گاہے بگاہے ان کے مختلف آپریشنز ہوتے رہتے تھے۔ ان کی عمر 94 سال تھی اور وہ گزشتہ کئی روز سے وینٹی لیٹر پر تھے۔ جس کے باعث رواں سال کے تبلیغی اجتماع میں شرکت بھی نہیں کرسکے۔ اٹھارہ نومبر2018 کو وہ خالق حقیقی سے جا ملے، اناللہ وانا الیہ راجعون۔بطور عالم دین ان کی شخصیت اور گراں قدر دینی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، ان کے جانے سے پیدا ہونے والا خلا آسانی سے پُر ہونے والانہیں ہے۔بلاشبہ ʼʼہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ʼʼ مگر کچھ ہستیوں کا جانا ایسا نقصان ہے جو بہت کم پورا ہوتا ہے۔ حاجی صاحب کا شمار بھی ان ہستیوں میں کیا جاتا ہےجو صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں۔ یہ آپ کی تبلیغ کا نتیجہ اور کردار کی سچائی ہی تھی کہ کھیلوں اور شوبز سے وابستہ کئی معروف ہستیوں نے امیر حاجی عبدالوہاب کے ہاتھوں بیت کی اور تبلیغی سرگرمیوں کا حصہ بنے۔ آج وہ سب دین اور دنیا دونوں میں سرخرو ہو رہے ہیں۔ انضمام الحق، محمد ثقلین، محمد یوسف ہوں یا مولانا طارق جمیل سب ہی حاجی صاحب کی صحبتوں سے فیض یاب ہو کر دنیا میں اسلام کے حقیقی چہرے امن و آتشی کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔آپ کا شمار دنیا کے بااثر ترین افراد کی فہرست میں ہوتا تھا ۔ بلاشبہ حاجی عبدالوہاب صاحب کا نام پاکستان میں مذہبی روا داری، اخوت،بھائی چارے کے قیام اور تبلیغ اسلام کے حوالے سے ہمیشہ جلی حروف میں لکھا جائے گا۔ رہتی دنیا تک عالم اسلام حاجی صاحب کی شخصیت اور کردار کو بھول نہیں پائے گی۔ انہوں نے اسلام سے وابستہ اس سنہرے قول کو ثابت کر دیا کہ اسلام انسان کے کردار اور عمل کی سچائی سے پھیلتا ہے۔لحد میں سو رہی ہے آج بے شک مشت خاک اس کی … مگر گرم عمل ہے جاگتی ہے جان پاک اس کی۔

بشکریہ جنگ اخبار

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔