ترش و شیرین “ایک درویش منش ڈی ای او” 

  یوں تو مزاج و طبیعت کے لحاظ سے “حضرت ِانسان”  کی کئی اقسام و انواع ہیں. اسی مخلوقِ انسانی میں جہاں ایسے لوگ قدم قدم پر درجنوں کے حساب سے  پائے اور دیکھے جاتے ہیں جو کسی منصب پہ براجمان ہونے کے بعد اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کو ایک دوسرے درجے  کی ”لو کیٹیگری” کی مخلوق گرداں کر اُن کے ساتھ  پُرتکلف رویہ رکھنے کو اپنے منصب کا لابُدی تقاضا سمجھتے  ہیں وہاں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جن کی نظر میں مرتبہ گنائی اور پروٹوکول جتائی کے یہ رائج الوقت نشانات و علامات خاص  اہمیت نہیں رکھتے۔ مصنوعیت سے یکسر خالی جس بے تکلف مزاج و کردار کے ساتھ روتے چلّاتے اس دنیا میں نمودار ہوتے ہیں۔ زندگی کی آخری رمق تک  اُسے بے روح مصنوعیت اور تکلف انگیز ٹھاٹھ باٹھ  کی نذر ہونے نہیں دیتے۔
چترال ایون سے تعلق رکھنے والے محکمہ ء تعلیم کے موجودہ ضلعی افیسر محترم احسان الحق کا شمار بھی لوگوں کے اسی ثانی الذکر گروہ میں ہوتا ہے۔  موصوف ایک نہایت ٹیلنٹڈ ایجوکیشن افیسر ہی نہیں، ایک نرالی و منفرد مگر مختلف حوالوں سے نہایت  متاثر کن شخصيت کے  مالک بھی ہیں۔ مخصوص ساخت و پرداخت اور  رائج العصر  پیراٸے سے آزاد اِن کی کُھلی ڈٙلی دل میں اترنے والی گفتگو ہر مجلس میں مرکزِتوجہ رہتی ہے۔ ڈیپلومیٹک اسلوب ِاظہار کی صنعت کا سہارا لے کر زبان چبا چبا کر گول مول بات کرکے وقتی طور پر دادِتحسین سمیٹنے اور واہ واہ اینٹھنے کی بجائے سیدھا سیدھا دوٹوک کہنے اور صاف صاف سنانے میں خاصے معروف ہیں۔ ان کی یہی عادت اِنہیں اپنے بہت سارے معاصرین سے جدا بھی کرتی ہے اور کسی حد تک فائق و ممتاز  بھی.
حقیقت یہ ہے کہ مشرقی اخلاقی اقدار کی بلندی سے انحطاط کی کھائی کی طرف سرپٹ لُڑھکتے کھسکتے ہمارے معاشرے میں ایسے سیدھے ٹائپ کے صاف گو اور راست گفتار  لوگ اگر نایاب نہیں ہیں، تو کمیاب و نادر ضرور ہیں۔
احسان الحق صاحب طویل عرصے سے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں تدریسی و انتظامی ہر دو شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے، اور تواتر کے ساتھ کامیابی کے جھنڈے قدم قدم پر گاڑتے آ رہے ہیں ۔ موصوف ماضی میں نہ صرف بطور  سی ٹی اور ایس ای ٹی مختلف سکولوں میں تشنگانِ علم کی پیاس چلو بھر بھر کر بجھاتے رہے ہیں بلکہ بطور سکول انچارچ، ہیڈ ماسٹر اور پرنسپل بھی اپنی انتظامی زمہ داریاں پوری تندہی و فعالیت کے ساتھ بخوبی نبھاکر بہت سارے ایوارڈ بھی اپنے نام کر چکے ہیں یہی وجہ ہیکہ اساتذہ و طلبہ سمیت متعلقہ ماتحت اسٹاف اور تعلیمی درسگاہوں  کے  جُملہ مسائل و مشکلات سے مکمل آگاہ بھی ہیں۔اور ان کو حل کرنے کے قابلِ قدر جذبے  سے سرشار بھی۔ سکولوں کو پیش آنے والے مسائل اور اساتذہ کی تدریسی مہارت و کارگردگی پر گہری نظر رکھنے والے محترم احسان الحق نہ صرف خود  انتہاٸی پروفیشنل  ہیں  بلکہ پروفیشنلزم کے انتہائی قدردان بھی ہیں۔ ایک پروگرام میں دورانِ تقریر فرمانے لگے کہ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ گھر میں ہوتے ہوئے میں ڈیوٹی سے کبھی غیر حاضر رہا ہوں. موصوف کے کولیگس اس بات کے بھی گواہ ہیں کہ آپ ڈیوٹی ٹائم مکمل ہونے سے پہلے کبھی بھول کر بھی گھر کی راہ نہیں لیتے.
گو کہ ذاتی زندگی میں خوش مزاج، کُھلے ڈلے اور ہنس مُکھ ضرور ہیں لیکن تکلفات و تصنعات کے لایعنی وقت خور فضول بکھیڑوں سے اللہ واسطے کا بیر رکھتے ہیں. کل وقتی سادگی کا ایسا کامل نمونہ بنے پھیرتے ہیں کہ گریڈ انیس میں ہونے کے باٶجود فخر و تکبر کا شاٸبہ و سایہ تک خود پر کبھی پڑنے نہیں دیتے۔ کسی بھی قسم کے تکلف و تصنع کو خاطر میں لائے بغیر گھریلو کاموں کی انجام دہی کے دوران چھوٹے چھوٹے کاموں مثلاً لکڑی چرائی، سودا سلف وغیرہ سے بذات خود نمٹتے ہیں. زبانی جمع خرچ اور خالی خولی کھوکھلی دعویداری سے سخت نفرت ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے .
قناعت، کفایت شعاری، خودداری، سرکار کی بچت اور قومی مفاد جیسے الفاظ کو اُن کے اصلی، حقیقی اور عملی معنوں کے سیاق و تناظر میں بھرتنے کے ہیں۔۔مثلاً گھر سے دفتر جاتے ہوئے یا چھٹی کے بعد دفتر سے گھر کی راہ لیتے ہوٸے متبادل مناسب بندوبست ہونے کی صورت میں دفتر کی گاڑی کا استعمال ہرگز گوارا نہیں کرتے ۔ فیول کا خرچہ کم سے کم رکھنے کی پالیسی پر خود بھی عمل پیرا رہتے ہیں اور  اپنے ڈرائوروں کو بھی اس کی تاکید و تلقین کرتے رہتے ہیں۔گاہ بگاہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ دفتر سے ایون جاتے ہوئے راستے میں محترم مولانا خلیق الزمان  صاحب نظر آ جائیں تو دفتر کی گاڑی واپس بھیج کر خطیب صاحب کی گاڑی میں سوار ہوتے ہیں..
موصوف اُصول شکن  ہیں اور نہ ہی انتظامی زمہ داریوں کی باریکیوں سے نابلد و ناواقف۔۔ شکم پرور ہیں نہ ہی خویش نوازی پر یقین رکھتے ہیں۔ شکم پروری اور خویش نوازی کے اس دور میں کوئی نِرا احمق ہی ہو گا جو اصول پرستی اُصول پرستی کھیل کر اپنوں کو خود سے خفا رکھے. ایک اصول پسند  انسان ہونے کے ناتے احسان صاحب ہمیشہ اصول پرستی کا علم ہاتھ میں اُٹھائے رکھتے ہیں۔ اپنی اس بے لچک اصول پسندی کی وجہ سے ہی شاید بہت سوں کو پسند بھی نہ ہوں۔لیکن نصف النہار کے سورج کی طرح روشن اور عیاں حقیقت یہی ہے کہ جہاں ایک طرف یہی اُصول شکنی اور قوانین کی تنفیذ میں امتیاز دیمک کی طرح ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے وہاں دوسری طرف ہمارے بہت سارے مسائل کا جڑ اور سبب بھی یہی بے اُصولی ہے۔ موصوف اگرچہ زبان کے سخت ہیں مگر دل میں کچھ اور زبان میں کچھ پر رتی برابر یقین نہیں رکھتے. کڑوی بات کہنے اور تُرش و تلخ سنانے کی تُہمت کے ساتھ متصف ضرور ہیں مگر وعدہ کرکے وعدہ خلاف شخص کے طور پر متعارف ہرگز نہیں۔ جو بات کہتے ہیں اُسے کر گزرنے کی اپنی بساط کے دائرے میں پوری کوشش کرتے ہیں.
ہم امید و توقع کرتے ہیں کہ ڈپٹی ڈی او حافظ نور اللہ، اے ڈی اوز محترم ضیا  ٕالرحمن، محترم محمد اشرف، محترم فاروق اعظم، ایس ڈی اوز محبوب الہی، جناب شہزاد ندیم اور کلریکل اسٹاف خوش بہار،عظیم، کرم الہی وغیرہ جیسے محنتی اور باصلاحیت رفقائے کار کو ساتھ لے کر اساتذہ و طلبہ سے منسلک بنیادی مسائل کو پوری چستی و تندہی کے ساتھ حل کرنے کےلئے اپنی پوری توانائی صرف گے۔
پس نوشت :باہر (دوسرے اضلاع ) سے آئے ہوئے اعلی سطحی سرکاری اہلکار اچھے کام کریں تو خوب تعریف ہوتی ہے لیکن اپنوں کی اچھائیوں کو گھر کی مرغی دال برابر والے خانے میں ڈال کر نظر انداز کیا جاتا ہے. سو اس روش کو چینج کرنے کی یہ ایک قلمی کوشش ہے… گھر کی مرغی دال برابر ہے اور نہ ہی دور کے ڈھول سہانے ہیں…
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔