دادبیداد…..پولیس کا ہے فرض

گرما گرم خبریں آرہی ہیں اور بحث ہورہی ہے کہ خیبر پختونخوا میں شامل ہونے والے نئے اضلاع میں پولیس سٹیشن قائم کئے جا رہے ہیں نئی انتظامی تقسیم میں بعض اضلاع کو ڈی آئی خان ، بعض کو پشاور اور بعض کو ملاکنڈ ڈویژن کے ریجنل پولیس آفس کے ساتھ ضم کیا جائے گا اس طرح نئے اضلاع میں عدالتی نظام کے قیام میں مدد ملے گی اور قانون کی بالادستی قائم ہوگی دوسری طرف پرانے اضلاع میں قائم پولیس سٹیشنوں کو نیا حکم نامہ ملا ہے کہ قابل دست اندازی پولیس واقعات میں ایف آئی آر سے پہلے مجاذ حکام کی منظوری حاصل کی جائے اور پیشگی منظوری کے بغیر ایف آئی آر درج نہ کیا جائے 1970 ؁ء کی دہائی میں پولیس نے ایک نعرہ عوام کو دید یا تھا ور یہ نعر ہ خاصا مقبول ہوا تھا اس نعر ے پر ڈرامے لکھے گئے نغمے گائے گئے اور خبارات میں اس کا خاصا چر چا ہوا نعر ہ یہ تھا
پولیس کا ہے فرض مد د آپ کی
کریں دل سے اس کی مد د آپ بھی
2002 میں نیا پولیس ایکٹ آنے تک اس نعر ے میں جان باقی تھی 2002 ء کے بعد پولیس کے نظام کو توڑ کر اس کے چا ر ٹکڑے کر دئیے گئے سٹیشن ہاؤس افیسر (SHO) سے لیکر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (DPO) تک کے ہاتھ پاؤں باند ھ دئیے گئے اور اب ابتدائی اطلاعی رپورٹ (FIR) کاا ختیار مقامی پولیس حکام سے واپس لیکر 300 کلومیٹر دور بیٹھے ہوئے بڑے صاحب کو دینے کے بعد پولیس کے نظام کا تیاپانچہ ہو گیا خدا جانے وہ کون بزر جمہرہے جو پولیس کے سسٹم کو برباد کر کے جرائم پیشہ گر وہوں کی حوصلہ افزائی کر نے پر تلا ہوا ہے یہ راکٹ سائنس نہیں ، قانون کی پیچید ہ مو شگا فیوں کا مسئلہ نہیں سیدھی سی بات ہے عام پبلک کے علم میں ہے کہ پولیس کو کمزور کر نے سے جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔ 2002 ء کے بعد دہشت گردوں کو جو آزادی ملی وہ پولیس کی کمزوری کی وجہ سے ملی اگر 2015 ء میں فوجی عدالتوں کو اختیارات نہ دئیے جاتے تو اب تک ایک مجرم کوبھی سزا نہ ہوتی ججوں کی شکایت یہ تھی کہ پولیس جرم کو ثابت کر نے میں بھی نا کام رہتی ہے پولیس کا مسئلہ یہ تھا کہ اس کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا گیا تھا پولیس سٹیشن کے اندر اپریشن کو الگ اور تفتیش کو الگ کر کے سسٹم میں بر بادی کی پہلی اینٹ رکھ دی گئی اس کے بعد ڈی پی او کی سطح پر دونوں کو الگ کر دیا گیا جس سے تفتیش اور گرفتا ریوں کا پورا عمل بری طرح متاثر ہوا پھر پر اسیکیو شن کا کام پولیس سے لیکر محکمہ قانون کو دید یا گیا کر یمینل برانچ پہلے ہی الگ تھا اس طرح چار متوازی دفاتر ایک دوسرے کے مقابلے پر آگئے ان چار الگ الگ دفتر ات میں ہم آہنگی کے لئے ریجنل پولیس آفس اور سنٹر ل پولیس آفس پر دباؤ بڑھ گیا اب ایف آئی آر کا اختیار ایس ایچ او سے لیکر مجازحکام کو دینے کے بعد رہی سہی کسر نکل گئی ملزم کو پکڑ نا ، اُس کے خلاف گو اہ لانا اور عدالت میں کسی شک اور شبہ کے بغیر جرم کو ثابت کر نا پہلے ہی چار الگ دفتر وں کی وجہ سے نا ممکن ہو گیا ہے اب ایف آئی آر میں ما ہ ، ڈیڑھ ما ہ کی تاخیر یا ایف آئی آر کی غیر موجودگی سے نئے مسائل سامنے آئینگے جس کا سارا فائد ہ جرائم پیشہ عناصر کو ملے گا مثلاً کو ہستان ، تورعز ، سوات ، وزیرستان،باجوڑیا چترال کے کسی پہاڑی گاؤں میں منشیات کا اڈہ پکڑ ا گیا ، قتل ، ڈاکہ یا اغواہ کی واردات ہوئی ، اسلحہ پکڑا گیا ملزمان گرفتا ہو ئے ایف آئی آر کے لئے مجاز حاکم سے اجازت لینے کی درخواست بھیجی جا ئیگی اس درخواست پر مناسب غور ہو گا اور ایف آئی آر درج کر نے یا ’’ ہاتھ ہولا‘‘ رکھنے کے سلسلے میں مناسب رہنما ئی میں ماہ ڈیڑھ ماہ کا عرصہ لگے گا اگر اس معاملے میں ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ بھی لگے پولیس کا مقدمہ کمزور ہو گا اور ہمیشہ کیطرح شک کا فائد ہ ملزم کو ملے گا ہم مانتے ہیں کہ انگریز نے ہمیں غلام بنا یا تھا انگریز بہت بُر ا تھا ہم یہ بھی مانتے ہیں مُغل باد شاہت کوئی مثالی حکومت نہیں تھی مگر مغلوں کا کو توال اور داروغہ جرائم کی تفتیش میں بے مثا ل ہوا کر تا تھا 2002 ء سے پہلے پولیس کا انگر یز ی نظام جو تھا وہ جرائم کی تفتیش میں بے مثال تھا ایک ہی شخص ملزم کو پکڑتا تھا تفتیش کر تا تھا مقدمہ عدالت میں لے جا تا تھا گواہ پیش کر تا تھا اور ملزم کو کیفر کردار تک پہنچا کر دم لیتا تھا دو ملاؤں میں مرغی حرام والی کوئی بات نہیں تھی ایس ،ا یچ، او ایک تھا ، ڈی ،پی ،او بھی ایک تھا ، پر اسیکیو شن بھی اُسی کے ماتحت کا م کر تا تھا سسٹم میں ہم آہنگی تھی کرائم برانچ سے اُس کو مد د ملتی تھی عوام کو ایک ہی پیغام جا تا تھا ’’ پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی، کریں دل سے اُس کی مدد آپ بھی ‘‘ اب اس پیغام کے چارٹکڑے ہو گئے ہیں عوام کس پولیس کی مد د کر ینگے اور پولیس کے کس ٹکڑے کو اپنا تعاؤن پیش کر ینگے ؟ .
مانا کہ تغافل نہ کر و گے لیکن
خاک ہو جائینگے ہم ، تم کو خبر ہو نے تک
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔