دسمبر پھر سے آنا مت

………محمد شریف شکیب……….

دسمبر کا مہینہ پوری قوم کے لئے بھاری ثابت ہوا ہے۔ خدا کرے کہ اس بار کسی کے آنگن میں بجلی نہ گرے۔ خدا کرے کہ کسی کا ہرا بھرا گلشن جل کر خاکستر نہ ہوجائے ۔ خدا کرے کہ کسی کی گود نہ اجڑے۔ خدا کرے کہ کسی کی دنیا تاریک نہ ہو۔ یہی دسمبر کا مہینہ تھا جب پاکستان اپنے ایک بازو سے محروم ہوگیا ۔سقوط ڈھاکہ کا واقعہ قومی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا۔ یہی دسمبر کا مہینہ تھا جب پشاورکے آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں نے حملہ کیا اور 144بچوں اور ان کے اساتذہ کو خون میں نہلا دیا۔ یہی دسمبر کا مہینہ تھا جب چترال سے اسلام آباد کے لئے اڑان بھرنے والا پی آئی اے کا طیارہ حویلیاں کے قریب پہاڑ سے ٹکرا کر ریزہ ریزہ ہوگیا اور اس میں سوار 147افرادکو ناگہانی موت کی غفریت نے فضاء ہی میں نگل لیا۔ اس اندوہناک سانحے میں بین الاقوامی شہرت یافتہ نعت خواں جنید جمشید اور ڈپٹی کمشنر چترال اسامہ احمد وڑائچ ہم سے بچھڑ گئے۔ اسی بدقسمت طیارے میں عمرا خان، سلمان زین،محمد خان، فرہاد سمیت 142مسافر اور عملے کے پانچ افراد سوار تھے۔جو دلوں میں ارمان لئے راہ عدم کو سدھار گئے۔جانے والے تو اپنی جانیں لے کر چلے گئے مگر اپنے پیچھے 147خاندانوں کو ہی نہیں پورے پاکستان کے اکیس کروڑ لوگوں کو بھی سوگوار چھوڑ گئے ۔سانحہ حویلیاں کی تحقیقات کے لئے کمیٹیاں بنائی گئیں۔ غمزدہ خاندانوں کو توقع تھی کہ المناک فضائی حادثے کی وجوہات کا پتہ چلایا جائے گا۔ پوری قوم کو سوگوار کرنے میں ملوث لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایاجائے گا۔ تاکہ غمزدہ پسماندگان کے دلوں کو کچھ تو قرار آجائے۔ مگر پھر وہی ہوا۔ جو اس سے پہلے ہوتا آیا ہے۔ ملک کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کی موت کا سبب بننے والوں کو کسی نے بے نقاب کیا نہ ہی ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے قاتلوں کا کھوج لگایاجاسکا۔ مشرقی پاکستان توڑنے کے ذمہ داروں کا تعین ہوسکا نہ ہی بہاولپور حادثے میں صدر مملکت سمیت قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے محرکات کا علم ہوسکا۔ اے پی ایس سانحے سے متاثرہ خاندان بھی ہنوز منتظر ہیں کہ ان کے بچوں کو خون میں نہلانے والوں کو بے نقاب کیا جائے گا۔ اسی انجام سے سانحہ حویلیاں میں اپنے پیاروں اور جگر گوشوں سے محروم ہونے والوں کوبھی دوچار ہونا پڑا۔سارا ملبہ شہید پائلٹ پر ڈال دیا گیا کیونکہ وہ اپنے خلاف الزامات کا جواب دینے کے لئے واپس نہیں آسکتا تھا۔ یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی گئی کہ فنی طور پر خراب جہاز کو گلگت سے بمشکل واپسی پر چترال کے دشوار گذار روٹ پر کیوں بھیجا گیا۔ ان لوگوں کے بیانات لینے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی جو فضاوں میں ڈولتے جہاز کی خوفناک آواز سن کر گھروں سے باہر نکل آئے تھے۔ ان مسافروں سے پوچھنے کی زحمت بھی کسی نے گوارا نہیں کی۔ جنہوں نے پشاور سے چترال تک اسی جہاز میں اذیت ناک سفر کیا تھا۔ اگر بہاولپور میں سی ون تھرٹی طیارے کے حادثے کی تحقیقات کرکے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا۔ اسلام آباد کی مرگلہ پہاڑیوں پر گرنے والے نجی ائرلائن کے طیارے کی تباہی کے اسباب معلوم کرکے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایاجاتا۔ تو شاید سانحہ حویلیاں رونما ہی نہ ہوتا۔ شہدائے حویلیاں کے یتیم بچوں، بیواوں اور غمزدہ والدین نے عدالتوں کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا تاکہ انہیں انصاف ملے اور آئندہ کسی دوسرے خاندان پر ایسی ہولناک آفت نہ گرے۔ مگر وہاں سے بھی اب تک انصاف نہیں ملا۔ اب غمزدہ خاندان حادثے کی جگہ پر موم بتیاں جلا کر اور اپنے پیاروں کی نشانی قبروں پر حاضری دے کر جگر کی آگ پر اوس ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔شہداء کے پسماندگان کسی کا گریبان تو نہیں پکڑ سکتے۔ تاہم دسمبر کو یہ دھائیاں دے کر اپنا غم غلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ۔’’ دسمبر پھر سے مت آنا۔ کوئی کرنا بہانہ مت۔۔ وہی باتیں، وہی یادیں۔۔ جگا کر پھر سلانا مت۔۔ میرے آنسو، میرا کاجل۔ بچھڑ کے اب چرانا مت۔۔ بڑی مشکل سے سنبھلے ہیں۔ ہمیں پھر سے رلانا مت۔۔ اگر جانا ہی ٹھہرا ہے، کسی کو یہ بتانا مت۔۔کہ تجھ بن ہم ادھورے ہیں، اسے جاکر سنانا مت۔۔دسمبر اب کے جاو تو، کبھی پھر لوٹ آنا مت۔۔ دکھوں کو اوڑھ کر سوئیں گے۔ ہم کو پھر سے جگانا مت۔۔ فقط اتنی گذارش ہے، دسمبر پھر سے آنا مت۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔