صدا بصحرا……ڈانواں ڈول 

خبر آئی ہے کہ حکومت مستحکم ہے پھر اس خبر کی تصدیق کے لئے دوسری خبر دی جا تی ہے کہ حکومت کوفوج کی تا ئید حا صل ہے اس کے بعد خبر جاری ہو تی ہے کہ پا ک فوج منتخب حکومت کے ساتھ کھڑی ہے ایک شخص کا تکیہ کلا م تھا ’’میں اپنے باپ کا بیٹا ہو ں ‘‘ کبھی کبھی وہ جذبات میں آتا تو کہتا ’’اُس ذات پاک کی قسم میں اپنے باپ کا بیٹا ہو ں ‘‘ ایک سیا نے شخص نے دو بار یہ بات سننے کے بعد کہا جو اپنے باپ کا بیٹا ہو تا ہے اسے کبھی اس کا اظہار کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور قسم کھانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ بات ہماری حکومت کے بار بار اعلانات پر پوری طرح صادق آتی ہے ان اعلانات اور خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے گویا حکومت ڈانواں ڈول ہے19اگست 2018ء کے دن اعلان کیا گیا تھاکہ حلف اٹھا نے کے دوسرے دن سوئس بینکوں سے چوری کے 6ارب ڈالر پا کستان لائے جائینگے دوسرے دن ڈالروں کی یہ خیالی دولت پاکستان نہیں لا ئی گئی دعویٰ کرنے والوں سے کسی نے پو چھا بھی نہیں کہ عا لیجاہ نے کسی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا تھا آئے روز حکومتی اراکین ، وزرائے کرام ، صدر مملکت اور وزیر اعظم کی طرف سے ایسے بیانات اخبارات کی زینت بنتے ہیں جن کی وضا حت یا تر دیدکے لئے پاک فوج کے ترجمان کو میدان میں اترنا پڑتا ہے اندر کی خبر لانے والے کہتے ہیں کہ فو جی تر جمان کے منصب جلیلہ پر فائز دوستاروں وا لا جنرنیل بھی ’’ٹانکا لگا نے ‘‘ سے تنگ آگیا ہے ٹانکا لگا نے کی تر کیب ایک حکا یت سے یا دآئی حکا یت یہ ہے ایک گاؤں کا چودھری بڑے بڑے دعوے کر تا تھا ایک روز ان کی حویلی میں سائل آیا سائل نے کہا کہ میں نو اب صاحب کے ہاں ملا زم تھا نواب صاحب کی وفات کے بعد بے روز گار ہو گیا ہوں چودھری نے پو چھا نواب صاحب کے ہاں کیا کام کرتے تھے ؟ سائل نے کہا ٹانکے لگا یا کر تا تھا چودھری نے پو چھا وہ کیا ہو تا ہے سائل نے کہا نواب صاحب گفتگومیں کسی جگہ پھنس جاتے تو میں لقمہ دیتا تھا اور یہی میر افرض منصبی تھا چودھری نے سائل کو ملا زم رکھ لیا چھوٹے مو ٹے ٹانکے لگا تا رہا چودھری صاحب بہت خوش ہوئے کہ کام کا بندہ ہاتھ آگیاہے ایک دن چودھری نے انگریز افیسر کی ضیافت کا اہتمام کیا ضیافت میں انواع و اقسام کے کھا نے تیا ر کروائے گئے انگریز آیا کھا نے کی میز پر چودھری نے کہا یہ ہرن کا گوشت ہے یہ چکور کا گوشت ہے اوریہ مر غا بی کا گوشت ہے میں نے ایک ہی گولی سے تینوں کا شکا ر کیا ہے انگریز حیران ہوا اس نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے مر غا بی تالاب یا جھیل میں بیٹھنے والا پرندہ ، چکور پہاڑ وں پر اڑنے والا پر ندہ اور ہرن چلنے یا دوڑ نے والا جانور تینوں کو ایک گو لی کیسے لگی ؟ چود ھری نے ملا زم کی طرف دیکھا اُس نے کہا سر! بات در اصل یہ ہے کہ جس وقت چودھری صاحب نے نشانہ باندھا اُس وقت ہرن زمین پر لیٹا ہوا تھا چکور پاس سے اپنی سبک خرامی سے چلتے ہوئے گذر رہا تھا مر غا بیوں کا غول اوپر سے اڑتے ہوئے گولی کی زد میں آیا اور گولی تینوں کو لگی انگریز نے کہا ’’او ! آئی سی ‘‘ ہاں بات سمجھ میں آگئی مہمان کو رخصت کرنے کے بعد چودھری نے ملا زم کو انعام دینا چاہا تو ملا زم نے کہا چودھری صا حب ! مجھے انعام نہیں اجا زت چاہیئے نو کری چھوڑ کے جارہا ہو ں چودھری نے کہا کیوں کیا ہوا ؟ ملا زم نے معذرت کرتے ہوئے کہا یہاں ٹانکے لمبے لمبے لگا نے پڑ تے ہیں کسی روز شامت آجا ئیگی فو جی ترجمان نے اب تک چھوٹے موٹے ٹا نکے لگا ئے ہیں کسی دن لمبے ٹا نکے لگا نے کی نو بت آئی تو وہ بھی معذرت کرے گا دو ستاری جرنیل کب تک ٹا نکے لگائے گا ؟ سول حکومت نے کہا 100دن دیدو اُس نے ٹانکا لگا یا ، ٹھیک ہے 100دن دیدو100دن بعد سول حکومت نے کہا 100دنوں میں کچھ بھی نہیں ہو سکتا ، اُس نے ٹانکا لگا یا ٹھیک ہے 100دنوں میں کچھ بھی نہیں ہو سکتا حکومت کے ایک وزیر نے کہا میرا محکمہ تبدیل ہو رہا ہے اُس نے ٹانکا لگا یا ٹھیک ہے تبدیل ہونے دو دوسرے وزیر نے کہا محکمہ تبدیل نہیں ہو رہا اُس نے ٹانکا لگا یا تبدیل نہیں ہو نا چاہئیے سول حکومت نے کہا بھارت کے ساتھ نر می نہیں ہو گی اُس نے کہا ٹھیک ہے نر می نہیں ہو گی سول حکومت نے کہا بھارت کو ہم غیر معمولی رعا یت دیکر کر تار پور کی سر حد کھولینگے اُس نے ٹانکا لگا یا یہ بھی ٹھیک ہے سول حکومت نے کہا چین کے ساتھ CPECکے معا ہدے پر نظر ثانی ہوگی تو فو جی تر جمان نے ٹانکا لگا یا کہ بالکل ہو نی چا ہئیے پھر سول حکو مت نے کہا کوئی نظر ثا نی نہیں ہو گی اُس نے ٹا نکا لگا یا ٹھیک ہے نہیں ہو نی چا ہئیے سول حکومت نے کہا امریکہ کو خا طر میں نہیں لائینگے ، اُس نے خا مو شی اختیار کی ، سول حکومت نے کہا آئی ایم ایف سے قرض لے لینگے اُس نے خا موشی اختیار کی ، سول حکومت نے کہا اچھا لیڈر ہمیشہ یو ٹرن لیتا ہے اُس نے خا مو شی اختیار کی سول حکومت نے کہا ہم مڈ ٹرم انتخا بات کے بارے میں سوچ رہے ہیں اُس نے خاموشی اختیار کی اب سول حکومت جو کچھ کہتی ہے وہ خا مو ش رہتا ہے ٹا نکا نہیں لگا تا شاید اُس نے محسوس کیا ہے یہاں لمبے لمبے ٹا نکے لگا نے پڑ تے ہیں اور اب تو اندر کی خبر لانے والے کہتے ہیں کہ مر کز کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی سر کاری پارٹی میں دراڑیں پڑ چکی ہیں صورت حال ڈنواں ڈول سی ہے فو جی ترجمان خا موش ہے بات اگر ٹانکا لگا نے کی ہے تو ٹانکا لگانے کی بھی حد ہو تی ہے اب بات حدوں کو پار کر چکی ہے ٹانکا لگانے کی گنجا ئش نہیں رہی حکمران جب کہتے ہیں کہ حکو مت مستحکم ہے تو دیکھنے اور سننے والوں کو محسوس ہو تا ہے کہ دال میں کچھ کا لا ہے اور جب حکمران دعویٰ کر تے ہیں کہ پا ک فوج ہماری پُشت پر ہے تو دیکھنے اور سننے والے پو چھتے ہیں ’’آخر کب تک ؟‘‘سیا سی نظام ڈنواں ڈول ہو تو کوئی ذی ہوش اور ذی شعور انسان اُس کا ساتھ نہیں دیتا آخر میں جا کے محسوس ہو تا ہے کہ ’’جن پتوں پر تکیہ تھا وہی پتے ہو ا دینے لگے ‘‘
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔