آغاخان ہائیر سیکنڈری سکول گلگت میں مختلف موضوعات پرمباحثہ،جنرل منیجر گلگت اورچترال،خوش محمد کا خطاب

گلگت ( نمائندہ خصوصی )  آغاخان ہائیر سیکنڈری سکول گلگت میں اقوام عالم خصوصاً مملکت خدا داد پاکستان کو درپیش مسائل اوران کےتدارک پر ایک بین السکول مباحثے اہتمام گیا گیا تھا ۔ جس کی صادارت آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان کی زیر نگرانی گلگت اور چترال میں مصروف عمل 152 سکولوں کے جنرل منیجر ریٹائرڈ بریگیڈئیر خوش محمد نے کی جبکہ اس تقریب کے خاص مہمان اسماعیلی ریجنل کونسل کے پریذیڈنٹ  نعیم اللہ تھے ۔ اس کے علاوہ پروگرام میں حصہ لینے والے سکولوں کے اساتذہ اور آغا خان ایجوکیشن سروس گلگت بلتسان اآفس کے زمہ دار افراد نے بھی شرکت کی ۔

مبا حثے کا انتظام و انصرام  سکول ہذا کے انگریزی ادبی انجمن نے کیا تھا ۔ اس مباحثے میں آغا خان ہایئر سیکنڈری سکول ہنزہ ، آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول گاہکوچ ، آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول گلگت اور الیزئین ہایئر سیکنڈری سکول گلگت  کے طلبا و طالبات نے کثیر تعداد میں حصہ لیا ۔  ہر سکول  سے تین تین ممبروں نے مباحثے میں حصہ لیا ۔مباحثے کی پہلی نشست  کی قرعہ اندازی میں  آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول گلگت اور آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول گاہکوچکا آمنا سامنا ہوا  مباحثےکا  موضوع “اظہار رائے کی آزادی “ تھا ۔ موضوع کے حق میں آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول جبکہ مخالفت میں آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول گاہکوچ نے مدلل گفتگو کی ۔ اس مقابلے میں آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول کو کامیابی حاصل رہی جبکہ مباحثے کے دوسرے دور میں ” مرد عورت سے طاقتور ہے “ کے موضوع پر آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول ہنزہ اور الیزئین ہائیر سیکنڈری سکول گلگت کا کانٹے دار مقابلہ ہوا اور الیزئین ہائیر سیکنڈری سکول گلگت نے مقابلے کا دوسرا دور اپنے نام کر دیا ۔ اسی طرح آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول گلگت اور الئزئین ہائیر سیکنڈری سکول گلگت  آخری نشست کےلئے نامزد ہوئے۔  دونوں سکولوں نے ” ہم سے ہمارے آباو اجداد کا زمانہ بہتر تھا “ کے  موضوع پر دلائل پیش کئے ۔ مقابلے کی اس نشست میں موضوع کی مخالفت میں آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول گلگت کے دالائل جاندار رہے ۔ یوں اس مباحثے میں پہلی پوزیشن پر آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول گلگت استادہ رہا  جبکہ دوسری پوزیشن الیزئین ہائیر سیکنڈری سکول گلگت کو حاصل رہی ۔اس پروگرام میں چاروں سکولوں نے  ملک میں” جنسی تشدد “ ،  “طلبہ کی پیشہ وارانہ تعلیم کے انتخاب میں والدین کا کردار” اور “سکولوں میں طلبہ کی غیر اخلاقی حرکا ت و سکنات “  جیسے مسائل پر تخلیقی اور سبق آموز خاکے بھی پیش کئے گئے ۔ اس پروگرام میں سکول ہذا کے میوزیکل کلب نے ملکی و علاقائی  موسیقی کی  دھنوں سے  محفل کو محظوظ کیا ۔ اس تقریب کے آخر میں مہمان خصوصی پریزیڈنٹ اسماعیلی ریجنل کونسل نے اپنی تقریر میں طلبا اور اساتذہ کی محنتوں کو سراہتے ہوئے سکول کے پرنسل جناب ظفر اقبال صاحب کی کاوشوں کی تعریف کی ۔

            آخر میں جنرل منیجر جی بی ایند سی ریٹائیرڈ بریگیڈئیر خوش محمد نے اپنے صدارتی خطبے میں سکول کے پرنسپل ،ا ساتذہ اور طلبا کے علاوہ مقابلے میں شریک تمام سکولوں کے منتظمین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا  ہمیں یقین ہے کہ آج کا  یہ علمی پروگرام دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات سے  نبر د آزما ہونے میں پہلی کڑی کی مثال  ہے کیوں  کہ سکولوں میں ہم نصابی سرگرمیوں کا انعقاد نصابی سرگرمیوں کا آئنہ دار ہوتی ہیں یوں  طلبہ کی محنت اور مطالعے میں دلچیسی کے علاوہ سکول کی عمومی کارکردگی کی پہچان بھی  انہی سرگرمیوں سے ہوتی ہے ۔انہوں ہائیر سیکنڈری سکولوں کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے  انہیں ہز ہائی نس کی جانب سے علاقے کے لئے شاندار تحفہ قرار دیا ۔ انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ جن مقاصد کی بنیاد پر ان سکولوں کو بنایا گیا ہے اُ ن مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ہم سب کو مل کر سخت محنت کرنی ہوگی تب جاکے وہ اہداف حاصل ہو سکتے ہیں جن کے لئے ان سکولوں کی بنیاد رکھی گئی ہے ۔ طلبہ کے مستقبل اور کیرئیر کے حوالے سے طلبہ پر بار بار زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے بچوں کو ڈاکٹر اور انجینئر کے علاوہ وہ بھی دوسرے پیشوں کے لئے اپنے آپ کو تیار رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔  ہمارے بچوں کو خصوصی طور پر پاکستان کے سول سسروس اور پاک آرمی جیسے ادروں کو ترجیح دینی ہوگی کیوں کہ یہ وہ پیشے ہیں جنہیں اختیار کرنے کے بعد ہمارے بچے اپنے علاقے اور قوم کا سہارا بن سکتے ہیں ۔ ہم نصابی سرگرمیوں کے حوالے سے اے -کے- ای- ایس -پی کی زیر نگرانی چلنے والے تمام سکولوں میں مختلف سطح پر مقابلے کروانے کی ہدایات بھی جاری کیں۔

آخر میں تمام شرکا نے محفل نے قومی ترانہ ایک ساتھ گا کر پاکستان کی سالمیت کے لئے دعا کی اور یوں یہ پروگرام اپنے اختام کو پہنچا

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔