دادبیداد …ہاوسنگ سکیموں کی نا کامی 

تازہ ترین خبر یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کی حکو مت مصروف ترین شاہراہ سے متصل نئی ہاوسنگ سکیم شروع کر رہی ہے 22سال پہلے ریگی للمہ ہاوسنگ سکیم آئی تھی جو نا کام ہوگئی 10سال پہلے جلو زی ہا وسنگ سکیم لائی گئی تھی جو نا کا می سے دو چار ہوئی خزانہ کے قریب نیشنل ہاوسنگ سکیم 1980کے عشرے میں نا کامی کا سبق دے کر رخصت ہوئی 31سال پہلے مستحقین زکوٰۃکے لئے 7مر لہ ہاوسنگ سکیم لائی گئی جو نا کا می کا منہ بولتا ثبوت ہے اب سر کار اور اس کی ہاوسنگ سکیموں پر سے عوام کا اعتبار اُٹھ چکا ہے اس پر ایک معتبر غیر سر کاری ادارے کے ذریعے تحقیق کروانی چاہیئے کہ 1980کے بعد سر کاری ہاوسنگ سکیمیں کیو ں نا کا می سے دو چار ہوئیں جب کہ 1960ء اور1970ء کے عشروں میں یا اس سے پہلے جو ہاوسنگ سکیمیں لائی گئی تھیں وہ کامیاب تھیں بلکہ ان میں سے بعض مثالی بستیاں ثابت ہوئیں جلو زی ہاوسنگ سکیم خالصتاً سر کاری ملا زمین کے لئے لائی گئی تھی اس وقت پاک فوج کی مثالیں دی گئیں کہ جونیئر ترین فوجی افیسر سے ہر ماہ 5 ہزار روپے کی کٹو تی ہوتی ہے وقت ، سال اور رینک کے ساتھ اس رقم میں اضافہ ہو تا ہے جو 35 ہزار روپے ما ہا نہ تک جاتی ہے ریٹا ئر منٹ کے وقت یا نا گہا نی وفات کی صورت میں فوجی افیسر کو بہتر ین گھر کی چا بی دید ی جا تی ہے یا گھر اس کے پسما ند گا ن کے حوالے کیا جاتا ہے لو گ سمجھتے ہیں کہ فو ج نے یا حکومت نے گھر دید یا حالا نکہ یہ آفیسر کی اپنی بچت ہو تی ہے جو ہر ما ہ اس کی تنخوا ہ سے کاٹی جا تی ہے نا گہا نی موت کی صورت میں فو ج کی ہا ؤ سنگ سو سائیٹی اپنی انشو رنس پالیسی کے ذریعے نقصان کا ازالہ کر کے افیسر کے ورثا کو بغیر کسی حیل و حجت کے تیار گھرحوالہ کر تی ہے جلو زی سکیم کے کار پر دازوں نے کہا تھاکہ ہماری سکیم فوجی سکیم کی طرح ہو گی یہ سرکاری ملازمین کی ڈی ایچ اے ہو گی اس کو آپ سول ہا ؤ سنگ اتھارٹی کہہ سکینگے اور باعزت زندگی گذارینگے اس پر ہمارے دوستوں کی رال ٹپکنے لگی دھڑ ادھڑ ممبر شپ لینے لگے ہم نے کہا ؂
نہ خنجر اُٹھے گا نہ تلوار اُن سے
یہ بازو میرے از مائے ہو ئے ہیں
مگر احباب بضد تھے کہ پوش علاقے میں با عزت زندگی صرف فوجی افیسروں کا حق نہیں ہمارا بھی حق ہے ہم نے دوست احباب کو سمجھا یا کہ فوجی افیسروں کا انتظامی ڈھا نچہ کا م کر تا ہے سول محکموں کا انتظامی ڈھا نچہ نہیں ہے 1975 ء میں جو گورنر ز کا ٹیچ تعمیر ہو ئے تھے آج ان کے اندر جھا نک کر دیکھو وہ کسی کی رہا ئش کے قابل نہیں رہے ان کے مقابلے میں1880 ء میں بنے ہو ئے فوجی افیسر ز مِس کے اندر جا ؤ اُس کے دیوار ، اُس کے لان ،اس کے فرش،فرنیچر اور غسلخانوں کو دیکھو تمہیں رشک آئے گا حسن انتظام ایک قابلیت بھی ہے اور آرٹ بھی ہے سول افیسروں کو اللہ پاک نے یہ صلاحیت نہیں دی یہ سلیقہ اور یہ آرٹ نہیں دیا1997 ء میں پشاور صدر کے پوش علاقے میں گورنر ہاؤس اور چیف منسٹر ہاؤس کے قریب سول افیسرز مس تعمیر ہو ئی تھی کیونکہ انگریزوں کا بنا یا ہوا شاہی مہمانہ خان سول حکومت نے بر باد کر دیا تھا اب نئی جگہ کی تلاش ضروری تھی آج شاہی مہمان خانہ بھی تباہی سے دو چار ہے سول افیسر ز مِس کا بھی بُرا حال ہے ان کے مقابلے میں آپ پشاور صدر کے کسی فوجی افیسر ز مِس کے اندر جھا نکیں تو 100 سال پرانی بلڈنگ چمکتی ہوئی نظر آتی ہے اس بلڈنگ کے لان دعوت نظا رہ دیتے ہیں فر نیچر، فرش اور غسل خانے بہتر ین سلیقہ اور حسن انتظام کا نمو نہ دکھا ئی دیتے ہیں فنڈ اور پیسہ سول افیسروں کے پاس فوجیوں سے زیادہ ہے قابلیت ، انتظا می تجر بہ اور سلیقہ نہیں ہے نگرانی نہیں ہوتی کام نہیں ہوتا مکھی پر مکھی مارنے کی مشق ہوتی ہے دن کو شام تک کھینچا جاتا ہے اور بس اگر کسی نجی ادارے کے ذریعے سرکاری ہا ؤ سنگ سکیموں کی ناکامی کا باقاعدہ سر وے کرایا جائے تو چار و جو ہات نظر آئینگی پہلی وجہ یہ ہوگی کہ سول محکمے کے افسروں میں خطرناک گروہ بندیاں ہیں ایک گروہ کاا فیسر دوسرے گروہ کے خلاف لو گوں کو اکسا تا ہے انٹی کرپشن میں یا عدا لت میں مقدمہ دائر کرواتا ہے اس کے بعدسکیم نا کام ہو جا تی ہے ریگی للمہ میں ایسا ہوا جلوزی ہاسنگ سکیم میں بھی ایسا ہوا سچ پوچھئے تو کا لا باغ ڈیم کو بند کرانے کے لئے بھی واپڈا کے افیسروں کا ایک گروہ متحرک ہواتھا اس گروہ نے سیا ستدانوں کی مدد حا صل کر کے کا لا باغ ڈیم کا منصوبہ سرد خانے میں ڈال دیا دوسری وجہ مختلف محکموں کے دوران جھگڑوں کا سر اُٹھا نا ہے ایک محکمہ دسرے محکمے کوپنچا دکھانے کے لئے بڑے بڑے سکیموں کو نا کام کرواتا ہے دو تین سول محکموں کی باہمی لڑائی میں قوم متاثر ہوتی ہے ملک متاثر ہوتا ہے عوام متاثر ہوتے ہیں تیسری وجہ بد عنوانی کے مقدمات کا غلط طریقہ کا رہے نا جا ئز اور نا روا قانون ہے اس غلط قا نون کا بڑا نقصان ہوا ہے اگر ایک افیسر دوسرے افیسر کے خلاف بد عنوانی کا مقدمہ بنوا تا ہے تو اس کا اثر تر قیاتی سکیم پر نہیں پڑ نا چاہئیے اگر بد عنوانی کے مقدمے میں ایک فرد یا کئی افراد کو پکڑ ا جائے توکام دوسرے لوگوں ذریعے جاری رکھا جائے سکیمیں متاثر نہیں ہو نگی چو تھی بڑی وجہ عدالتی نظام کی نا کامی ہے ہما را عدالتی نظام 30سالوں میں کسی مقدمے کا فیصلہ نہیں سنا تا ریگی للمہ کیس 22سا لوں سے عدا لت میں ہے حا لانکہ اس کا فیصلہ 4مہینوں میں آنا چاہئیے تھا جلو زی ہا وسنگ سکیم کی نا کامی خیبر پختونخوا میں سول انتظامیہ کی ناکام سکیموں کی تازہ ترین مثال ہے اس سکیم میں سکول اور کا لج اساتذہ کی بڑی تعداد کے اربوں روپے ڈوب گئے ہیں اگر یہی حا لت رہی تو آئیندہ سول حکومت پر کوئی بھروسہ نہیں کرے گا

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔