صدا بصحرا….استاد کو سیلوٹ 

حکومت نے حکم نامہ جاری کیا ہے کہ پو لیس استاد کو سیلوٹ کریگی اس حکم کا بڑے پیما نے پر خیر مقدم کیا جا رہا ہے مخصوص حلقوں نے خیر مقدمی بیا نات میں مخصوص جملوں کو دہرا نے کا خوب مشق کیاہے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ تاریخ میں یہ پہلی حکومت ہے جس نے استاد کو پو لیس پر فو قیت دی ایک دوسرے بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت کے اس انقلا بی قدم سے پو لیس کی رعونت میں کمی آئیگی اُس کا غرور ٹوٹ جائے گا وہ پہلی بار محسو س کریگی کہ استاد کا در جہ پو لیس سے بڑا ہے ایک تیسرے بیاں کے الفاظ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھنے کے قا بل ہیں بیان کے متن میں کہا گیا ہے کہ حکو مت کے اس تاریخی حکم سے ا ستاد کو پہلی مر تبہ احساس ہوگا کہ وہ معا شرے کا مغزز شہری ہے اور یہ ایک ریکارڈ ہے کہ کسی حکومت نے پو لیس کو استاد کے ما تحت کر دیا غرض جتنے منہ اتنی باتیں مجھے دیر با لا کے سینئر استاد کا تبصرہ پسند آیا سینیر استاد نے کہا ہے کہ حکمنا مہ مہمل ہے ، بے معنی بھی اور بے محل بھی ہے مہمل اس معنی میں کہ حکم میں یہ نہیں لکھا کہ پو لیس کا سپا ہی سیلوٹ کرے گا یا ڈی آئی جی بھی سیلوٹ کرے گا بے معنی اس معنی میں ہے کہ سیلوٹ کرنے سے استاد کو کیا فائدہ ہو گا ؟ بے محل اس لئے کہ استاد کے پاس سلام ، ادب اور سیلوٹ کی کوئی کمی نہیں وہ سکول میں ایک اضافی کمرہ ، دو ٹوٹی پھوٹی کرسیوں کی جگہ نئی کر سیاں اور بچوں کے بیٹھنے کے لئے ٹاٹ مانگتا ہے عزت کے ساتھ نو کری کا ما حول مانگتا ہے سکول کے کاموں میں سیا ستدانوں کی بے جا مدا خلت سے آزادی کا مطا لبہ کر تا ہے استاد نے کبھی نہیں کہا کہ پو لیس مجھے سیلوٹ کرے ، فو جی مجھے سیلوٹ کرے ڈیرہ اسمٰعیل خان کے ایک استاد نے تصویر کا دوسرا رُخ دکھا یا ہے اُن کا نقطہ نظر یہ ہے کہ بے چاری حکومت کے پا س ڈھپ کا کوئی کا م نہیں ہے اس لئے ٹامک ٹو ئیاں مارنے پر زور دیا جارہا ہے لیپا پو تی ہو رہی ہے ڈرامے ہو رہے ہیں خبروں میں رہنے کے لئے اوٹ پٹانگ اعلا نات کئے جا تے ہیں اس ڈرامہ بازی کا فائدہ یہ ہے کہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹ جا تی ہے مثلاً سکو لوں کو ٹاٹ کی فراہمی بند کر دی گئی ہے سردیوں میں بچے اور بچیاں گھر سے بوری ، چٹائی اپنے ساتھ سکول لاتی ہیں گرمیوں میں ننگے فرش پر بیٹھنا پڑتا ہے گرلز پرائمیری سکول میں استانی کے لئے کر سی اور میز نہیں ہے 50سال کی استانی کو آپ کی حکومت کُر سی نہیں دے سکتی ، میز نہیں دے سکتی ، ایم پی اے کے نا جائز حکم سے اس کو تحفظ نہیں دے سکتی گھر کے قریب یا سہولت کی جگہ پر ملا زمت کے حق کو تسلیم نہیں کر سکتی دفتر کے اندر اس کی عزت نفس بحالی نہیں کر سکتی ، راستے میں پو لیس کے سپا ہی استانی کو سیلوٹ ما رے گی تو وہ مزید اذیت اور ٹار چر سے دو چار ہو جائے گی اُس کے لئے راہ چلنا بھی دشوار ہو جائے گا راستے میں سپاہی اس کو سیلوٹ مارے گا مگر پو لیس سٹیشن سے واسطہ پڑ ا تو اس کو انصاف نہیں ملے گا لیکن تصویر کا یہ رُخ بھی منفی رُخ ہے منفی سوچ اور منفی انداز فکر کی عکا سی کر تا ہے ہمیں حکم ملا ہے کہ مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھو حکومت کی مجبوری کو سمجھنے کی کو شش کرو تبدیلی وہ ہے جو نظر آئے سکول میں بچوں اور بچیوں کے بیٹھنے کے لئے ٹاٹ فراہم کیا جائے تو بازار میں نظر نہیں آتا استا نی کو بیٹھنے کے لئے کر سی دی جائے تو بازار میں نظر نہیں آئے گی پرا ئمیری سکول میں 6کمرے تعمیر کرکے بہتر تعلیمی ما حول دیا جائے تو بازار میں پتہ ہی نہیں لگے گا استاد کو ایم پی اے کے ہاتھوں بے جا تبدیلی سے نجا ت دلا ئی جائے تو بازار میں اس کا ڈھنڈورا نہیں ہو گا پو لیس کا سپاہی 20سال کی نئی استانی یا 55سال کی سنئیر استانی کو سیلوٹ مارے گا تو سب کو یہ نظارہ اچھا لگے گا اس لئے حکومت نے سوچ سمجھ کر بہتر پروپیگینڈے کے لئے پو لیس کے سپاہی کو حکم دیا ہے کہ استاد اور استانی کو سیلوٹ مارے یہ مو جودہ حکومت کے انقلابی اقدامات میں سے ایک ہے اگر چہ مخا لفین کی منفی سوچ اس کو تسلیم نہیں کر تی کہ گور نر ہا وس یا ایوان صدر کے اندر گھومنے پھر نے سے عوام کی تقدیر بدل جاتی ہے مثلاً قصہ خوانی پشاور کا ریڑھی بان ، لکشمی چوک لاہور کا رکشہ ڈرائیور یا ایمپریس مارکیٹ کراچی کا مزدور جب گورنر ہاؤس میں گھومتا ہے تو اس کے چو دہ طبق روشن ہوتے ہیں وہ پو لیس کا ظلم بھول جا تا ہے عدالت کی بے انصا فی اُس کی نظر ہی نہیں آتی بازار میں اشیا ئے صرف کی مہنگائی کا غم اس کو نہیں ستا تا ، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ اس کو یاد نہیں رہتی ، گاوں کی ٹو ٹی ہوئی سڑک اس کو یا د ہی نہیں آتی نلکے کا جو پانی ایک مہینے سے بند ہے اس کو بھی بھول جا تا ہے وہ گورنر ہاوس میں گھوم پھر کر اپنی مراد کو پا لیتا ہے اور دل و جان سے محسوس کر تا ہے کہ تبدیلی آنہیں رہی بلکہ تبدیلی آگئی ہے منفی سوچ وا لوں سے مجھے شکوہ نہیں یہ اُن کی غلطی نہیں بے چا روں نے میکیاولی ، گورچا کوف اور چانکیہ کے نظر یات کا مطا لعہ نہیں کیا اس طرح کی مفید کتا بیں نہ ہمارے نصاب میں ہیں نہ ہماری لائبریریوں میں دستاب ہیں گوگل چچا کے پاس وقت نہیں کہ ایسی کتابیں تلا ش کر کے ایسے لو گوں کو دیدے اور ان کی منفی سوچ کو مثبت اندازفکر میں بدل دے منفی سوچ والے لوگ چانکیہ کے فلسفہ حکمرانی کا مطا لعہ کرتے تو ان کو پتہ لگتا کہ عوام کو احمق اور بے وقوف سمجھنا وہ بنیاد ہے جس پر حکمرانی کی پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے حکمران اگر عوام کو ذی شعور ، بیدار مغز اور ہو شیار سمجھنے لگا تو وہ حکومت نہیں کر سکیگا اس کو ہر وقت اچھے اوربرے کی تمیز کا مر ض لاحق رہے گا اُس کو ہمیشہ عوامی مفاد اور لو گوں کی فلاح و بہبود کا وہم لگا رہے گا عوام کو پر لے درجے کا بے وقوف سمجھنے وا لاحکمران نتائج سے بے پر وا ہو کر حکمرانی کا حق ادا کر تا ہے اور یہ تبدیلی کی پہلی علا مت ہے پرنس گورچاکوف کے فلسفے نے زار روس کی مملکت کو اتناہی ثر وت مند کیا جتنا کہ کوتلہ چانکیہ کے فلسفے نے مہا بھارت کو ما لا مال کیا تھا گور چاکوف کہتا ہے کہ اجتماعی مفاد ایک دھوکا اور فریب ہے حکمرانی کو اس فریب سے گریز کرنا چاہئیے وہ کہتا ہے کہ حکمران کو اپنا مفاد حا صل کرنے کے لئے پروپیگینڈے کا سہارا لینا پڑتا ہے پروپیگینڈے کے ذریعے حکمران دن کو رات اور رات کو دن ثا بت کر سکتا ہے اور ریہی اچھی حکمرانی کا راز ہے اگر تمہارے مخا لفین اس کو ڈرامہ بازی کہیں تو پرواہ مت کرو ڈرامہ بازی میں تم اپنے مفادات سمیٹتے رہو گے اور یہی حکمران کی کا میابی ہے بے چارہ میکیاولی بد نام بہت ہے مگر آدمی کام کا بندہ تھا میکیاولی کے فلسفے کا خلا صہ یہ ہے کہ حکمران ’’عقل کُل ‘‘ہوتا ہے اس کو مشورے کی ضرورت نہیں ہوتی حکمران کو ہروقت ایسے لو گوں کی صحبت میں بیٹھناچاہئیے جو اُس کو ’’عقل کُل‘‘سمجھتے ہوں اور اس کی دانائی میں ذرہ برابر شک نہ کرتے ہوں ایسے لو گوں کو حکمران کے قریب آنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئیے جو حکمران کو مشورہ دینا ، راستہ بتانا اور نئی راہ دکھانا چاہتے ہوں ایسے لوگ کباب میں ہڈی کی طرح ہو تے ہیں میکیاولی کے ان نظریات پر عمل کئے بغیر تبدیلی کے خواب کو حقیقت کا روپ دینا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے اس لئے تبدیلی کے گرامر میں جمع متکلم کا صیغہ نہیں واحد متکلم کا صیغہ ہے’’ہم ‘‘ کا لفظ استعمال نہیں ہو تا ’’میں ‘‘ کا لفظ استعمال ہو تا ہے اور اس لفظ میں جا دو کا اثر ہے حکومت کا نیا حکم مجھے اس لئے پسند آیا ہے کہ پولیس کا سپاہی سیلوٹ مارے گا تو دوسال سروس والی استانی کے دل میں واحد متکلم یعنی ’’میں‘‘ کا احساس پیدا ہو گا 35سال سروس والا استاد بھی خود کو ٹٹو لے گا کہ میں کتنا بڑا آدمی ہوں چانکیہ زندہ باد
؂

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔