حقائق……ماحولیاتی صفائی کی اہمیت

……: حمزہ گلگتی(پی ایچ ڈی)…….

انسان ایک ایسے ماحول میں ہی زندہ رہ سکتا ہے جہاں بنیادی ضروریات دستیاب ہوں۔ہر فہم والا اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ زندگی کی بقاء کے لئے دوسری بہت ساری ضروریات کے علاوہ ہوا اور پانی کا وہ کلیدی کرادر ہے کہ اس کے بغیر انسان ایک منٹ بھی سروائیو نہیں کرسکتا۔جو قومیں ان دو اہم بنیادی ضروریات کی حفاظت نہ کر سکیں وہ جلد یا بدیر صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں گیں۔
ایڈورڈ اَبے(Edward Abbey) ایک امریکن مصنف گزرا ہے،جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر وقت ماحولیاتی تغیرات سے انسانی زندگیوں پر تبدیلی کے بارے اپنے مشاہدات اور تاثرات سے دلائل کے ساتھ دنیا کوآگاہ کرتے رہے۔انہوں نے نہ صرف ماحولیات کی بہتری کے لئے کام کرتے ہوئے کئی کتابیں لکھیں بلکہ وہ پبلک لینڈ پالیسیز کے بارے حکومتی پالیسیوں کا ناقد بھی رہا۔ان کی ایک’’ کتاب صحرا میں خلوت نشینی، جنگل میں ایک موسم‘‘ (’’Desert Solraire, a Season in the Wilderness‘‘) کے نام سے لکھی جسے انہوں نے جنگلوں میں رہ کے تحریر کیا۔خلوت میں جنگلی حیات کے ساتھ ان کے محسوسات کا اس کتاب سے پتہ چلتا ہے۔وہ اسی میں راحت محسوس کرتا تھا اور شاید اسی لئے وہ ایسے علاقوں تک عام سہولیات کی فراہمی کے لئے حکومتی اقدامات کا مخالف تھا۔اُس نے فطری(جنگلی،ماحولیاتی)زندگی کے بارے ایک مشہور جملہ بھی کہاکہ ’’جنگل یا ویرانہ کی زندگی ایک آسائیش نہیں بلکہ انسانی روح کی ویسی ضرورت ہیں،جیسے روٹی اور اچھی پانی ضروری ہیں۔(Wilderness is not a luxury but a necessity of the human spirit, and as vital to our lives as water and good bread.)
اپنی اس متذکرہ کتاب میں انہوں نے اللہ کے بنائے نیچر میں انسان کی رسائی کے لئے تمام سہولیات کی فراہمی کی مخالفت کی ہے۔انہوں نے لکھا ہے کہ انسان کی آسان رسائی سے ایسے علاقوں کی خوبصورتی ہی ماند نہیں پڑ جاتی بلکہ گندگی کے پھیلانے اور صفائی کے فقدان سے ایسے نیچرل انیملز کا بھی خاتمہ ہوتا ہے جن کا وجود اس کائنات کی خوبصورتی کا باعث ہیں۔
ایک سال پہلے یورپ کے ایک نسبتاََ غریب ملک رومانیہ کے جنگلوں میں چند دن سیروتفریح کے لئے جاتے ہوئے کسی دوست سے یہ کتاب لی تھی۔اس کتاب میں لکھی گئی بہت ساری چیزوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر ایک چیزمشترک ہے کہ جس قد زندگی کی سہولیات کے لئے اسائیشیں ایجاد کی گئی ہیں اسی حساب سے انسان کی تباہی کا سامان بھی فراہم کیا گیاہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ہار آسائیش کا متبادل بھی سوچا یا ایجاد کیا جاتا ہے تاکہ اس کے برے اثرات (Bad impacts)سے زندگیوں کو محفوظ بنایا جاسکے۔مثلاََ یورپ کے بیشتر ممالک میں یہ قانون بن رہا ہے کہ دوہزار تیس کے بعد فیول سے چلنے والی گاڑیوں کی پیداوار بند ہوگی، فیکٹریوں کی چمنیوں میں ایسے آلات لگائے جائنگے جن سے مضر ذرات ہوا میں تحلیل نہ ہوں ،ان کے ری سائیکلنگ کا نظام ہو، جنگلات کی کٹائی کوحتیٰ الامکان روکا جاےئے اواگر بقدرِ ضرورت کاٹا جائے تو اس سے زیادہ جنگلات کی پیداوار بھی ہو۔حکومی سطح پر یہ اقدامات کئے جاتے ہیں اور عوام میں بھی بھی اس کا شعور ہے کہ ہمیں کس چیز کی کیسے حفاظت کرنی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم پاکستانی عوام اس ترقی کو پالینے کے پیچھے ایسے سر پَٹ دوڑ رہے ہیں کہ ہمیں خبر ہی نہیں کہ اس کاہمارے آنے والے نسلوں پر برا اثر(bad impact) پڑسکتا ہے اس لئے اس کا متبادل بھی تلاشاجائے۔ اور تو اور ہم جنگلات کاٹنے میں ایسے لگے ہیں جیسے اس کی اب ضرورت ہی نہیں رہی مگراُگانے کے شعور کا فقدان بھی ظاہر ہے۔بھلا ہو عمران خاں صاحب کا جنہوں نے اس طرف توجہ دی ہے تھوڑی بہت۔یہ آگاہی عوامی سطح پر ہو کہ ہمیں درخت لگانی چاہےئے یہ ہمارے مستقبل کے لئے ضروری ہیں۔ روشن مستقبل کے لئے سائنسی ایجادات ہی نہیں صاف ماحول بھی ضروری ہے۔
نظر آرہا ہے کہ مستقبل کے تین بڑے چیلنجز ہونگے ، جن سے نبرد آزما ہونے کے لئے نوجوانوں کو آگاہ رہنے کی ضرورت ہے۔ہمارا المیہ ہے کہ ان تین میں سے دو کا ہم پاکستانیوں کو ابھی سے سامنا ہے۔ بدترین ماحولیاتی تغیرات، سائیبر سیکیورٹی چیلینجز،اور جنریشن گیپ۔ اگلے صدی تک ہم جنریشن گیپ کا شکار تو نہیں ہونگے(یورپ اور دوسرے مغربی ممالک میں یہ مسئلہ سر اٹھا چکا ہے) مگر ماحولیاتی تغیرات اور سائیبر سیکورٹی کے مسائل کا ہم ابھی سے شکار ہو رہے ہیں۔
ماحولیاتی صفائی کے لئے بنیادی اور اہم شۂ جنگلات کی پیداوار ہے جس سے مگر ہم پہلے ہی غافل ہوچکے ہیں۔ اپنی کوئی ذمہ داری کا کسی کو احساس نہیں۔ ہر کام گورنمنٹ کی ذمہ داری نہیں ہوا کرتی۔بحثیتِ ایک شہری ہماری بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔جب تک ہم اپنی ذمہ داریوں سے عہدا براء نہیں ہونگے گورنمنٹ لاکھ جتن بھی کرے ہماری زندگیاں تبدیل نہیں ہونگیں۔قوموں کی زندگی کو تبدیل کرنے میں گورنمنٹ کے ساتھ ان کا اپنا بھی بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ جب تک ہم میں وہ تبدیلیاں نہیں آئینگی تب تک ہماری ترقی کوئی ترقی نہیں کہلائیگی۔ترقی مادی چیزوں سے نہیں بلکہ ترقی انسانی اذہان کی تبدیلی سے آجاتیں ہیں۔ہمیں اپنے ذہنوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہیں۔
بہت ساری چیزیں ہیں جو ہماری زندگیوں سے نکلتے جارہے ہیں ان کو اپنانے کی ضرورت ہیں۔ سال 2018 جولائی کے آخری ہفتے فیصل آباد زرعی یونیورسٹی سے طلباء و طالبات کا ایک گروپ براستہ شندور پھنڈرآئے جو خوبانیوں پر تحقیق کر رہاتھا۔ان میں پروفیسرز کے علاوہ ماسٹرز اور ایم فل کے طلباء تھے۔ میری اُس پروفیسر سے گپ شپ ہوئی جو غالباََ جرمنی سے باغبانی وغیرہ (Horticulture) پر پی ایچ ڈی کررکھا تھا۔ انہوں نے ایک بات کہی جس سے اندازہ ہوا کہ ہم اجتماعی طور پر اُن چیزوں سے دور ہوچکے ہیں اور جس کا کسی کو اندازہ بھی نہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ میں 2014 میں براستہ شندور یہاں سے ایک ریسرچ کے سلسلے میں گزرا تھا تب مجھے یہاں جتنے درخت لگے نظر آئے تھے صرف چار سالوں میں ان کا دگنے سے بھی کم نظر آرہے ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ تمہارے لوگوں کو اندازہ ہی نہیں کہ درخت ایک کاٹے تو پانچ لگانی چاہئیے۔کیونکہ ایک بڑا درخت کٹ جائے تو اس کی جگہ کئی چھوٹے پودے بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ ایک حیران کن بات ہی نہیں تھی بلکہ ایک المیہ تھا کہ گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں میں جہاں کے لوگوں کی زندگی کا انحصار دو چیزوں پر ہیں، فصلیں باغات اور مال مویشیاں۔اب یہ چیزیں بھی ان سے چھنتے جارہے ہیں۔نئی نسل کام کرنے کو اپنی تذلیل سمجھتی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ درخت لگانا، فصلیں اگانا ہمارا کام ہی نہیں رہا اب۔ یہ ایک ذہنیت ہے جو کہِ بلڈہو چکی ہے ، یا کر دی گئی ہے ۔اس ذہنیت کی تبدیلی کی
ضرورت ہے۔ اس آگاہی کو عام کرنے کی ضرورت ہے کہ انسانی بقا کا اصل دارومدار صاف شفاف ماحولیاتی نظام پر ہے اور صاف ماحولیاتی نظام کا انحصار درخت لگانے اور فصلیں اُگانے پر ہیں۔ اگر ترقی کے نام پر یہ سب چیزیں چھن جاتیں ہیں تو وہ ترقی نہیں تباہی کہلائے گی۔
نوٹ:میں اپنے اس کالم میں گلگت شندور روڈ کے بارے ایک اخباری بیان کا ذکر کرنے کے لئے کیا تھا۔بات کہیں دور نکل گئی۔۔لہٰذا یہ اگلے پہ اُٹھا رکھتے ہیں۔گلگت شندور روڈ کی کتنی اہمیت ہے اور حکومتی سطح پر اسے کس طرح نظر انداز کر کے غذر اور چترال کے لاکھوں لوگوں کواس بنیادی سہولت سے محروم رکھا گیا ہے اس پر تفصیل سے بعد میں انشاء اللہ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔