سال2018، کیاکھویا،کیاپایا؟

……..محمد شریف شکیب……

سن عیسوی بدلنے پر خوشیوں کے شادیانے بجانے والوں کو ہماری طرف سے بھی نیا سال مبارک ہو۔ خدا کرے کہ نیاعیسوی سال پاکستان اور عالم اسلام کے لئے خوشیوں کا پیغام لائے۔ سال 2018مختلف حوالوں سے قوم کے لئے ملے جلے تاثرات کا حامل رہا۔ سب سے بڑا واقعہ عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کا وفاق میں پہلی بار اور خیبر پختونخوا میں دوسری بار اقتدار میں آنا تھا۔ سال بھر احتساب کا بھی کافی غلغلہ رہا۔ کچھ بڑے لوگ احتساب کے شکنجے میں کس دیئے گئے۔ کچھ لوگوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ جس سے یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ ملک میں جوابدہی کا نظام قائم ہوگا۔ رواں سال ڈالر کی اڑان بہت اونچی رہی جس کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان آیا۔ بین الاقوامی تعلقات کے شعبے میں پاکستان کو کافی کامیابیاں ملی ہیں ۔سال2018کے دوران زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی نابغہ روزگار شخصیات ہم سے بچھڑ گئیں ۔سیاست کے شعبے میں پاکستان تحریک استقلال کے سربراہ ائر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان، جے یو آئی س کے سربراہ اور جید عالم دین مولانا سمیع الحق ، فرزندپشاور بیرسٹر ہارون بلور، فرزند کلاچی اکرام اللہ گنڈاپور، قائد تحریک صوبہ ہزارہ بابا حیدر زمان، انسانی حقوق کی علمبردار عاصمہ جہانگیر،مسلم لیگ ن کی رہنما اور سابق خاتون اول بیگم کلثوم نواز اور عوامی ورکرز پارٹی کے سربراہ فانوس گجر کا انتقال بڑے قومی نقصانات تھے۔ ان تمام شخصیات کا ملکی سیاست میں منفرد مقام رہا ہے۔ سب سے زیادہ نقصان ادب و ثقافت اور صحافت کو سال 2018میں اٹھانا پڑا۔ اردو ادب کے سب سے نامور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی وفات ادب کے شعبے کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ تاہم ان کی شوخ تحریریں خاکم بدہن، آب گم، زرگذشت اورچراغ تلے ہمیشہ ان کی یاد دلاتی رہیں گی۔معروف ڈرامہ نگار، فلم ساز، شاعر، ادیب، کالم نگار اور صحافی یونس قیاسی اور پاکستان رائٹرز گلڈو انجمن ترقی پسند مصنفین کے جنرل سیکرٹری،صحافی، کالم نگار اور شاعر سردار خان فنا کی وفات خیبر پختونخوا کی صحافت، ادب اور ثقافت کے لئے ناقابل تلافی نقصان تھا۔جبکہ قومی سطح پر اپنے قلم سے لفظوں کے موتی پرونے والے معروف کالم نگار منوبھائی بھی ہم سے بچھڑ گئے۔ تبلیغی تحریک کے بانی اور جید عالم دین حاجی عبدالوہاب اور معروف عالم دین شیخ امان اللہ بھی گذشتہ سال ہم سے بچھڑنے والوں میں شامل ہیں۔براڈ کاسٹنگ کے شعبے میں نثار محمد خان، صداکاری میں قاضی واجد اور علی اعجاز بھی ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ اپنے گھریلو ٹوٹکوں سے ملک بھر میں شہرت پانے والی زبیدہ آپا بھی سلور سکرین کو ویران کرکے ہمیشہ کے لئے ہم سے روٹھ گئی۔کھیل کے میدان میں پاکستان کے لئے گرانقدر خدمات انجام دینے والے اولمپئن منصور احمد بھی آخری عمر میں مصائب و آلام میں مبتلا رہنے کے بعد ہم سے جدا ہوگئے۔ سال2018کے دوران ہمیں داغ مفارقت دینے والوں میں معروف ماہر تعلیم اور ادب و ثقافت کے شعبے میں ملک گیر شہرت پانے والے سجاد بابر اور خواجہ وسیم بھی شامل ہیں۔ یہ تمام وہ شخصیات ہیں جنہوں نے اپنی شبانہ روز محنت سے نہ صرف اپنے شعبوں میں نمایاں مقام حاصل کیا بلکہ وہ قوم کے لئے رول ماڈل تھے۔ وہ اپنے من کا روگ چھپاکر دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کے فن میں ماہر تھے۔اپنی زندگی جینا کوئی کمال نہیں ہوتا۔ کیڑے مکوڑے، چرند پرند،درندے اور حیوان بھی اپنی زندگی جی رہے ہوتے ہیں۔ انسان اور دیگر جانداروں میں فرق صرف اتنا ہے کہ انسان دوسروں کے لئے بھی جینے کا سامان پیدا کرتا ہے۔ اپنی خوشیاں قربان کرکے دوسروں کی زندگی خوشیوں سے بھرتا ہے۔ اپنا دکھ چھپا کر دوسروں کو سکھ پہنچاتا ہے۔مادہ پرستی اور نفانفسی کے اس دور میں اپنا وقت، وسائل اور زندگی دوسروں کے لئے وقف کرنے والے لوگ ہی انسانیت کے اعلیٰ ترین درجے پر ہوتے ہیں۔آج کل کی مصروف زندگی میں کسی کو جیتے جی یاد کرنا کافی مشکل ہے۔ لیکن جب وہ ہستیاں ہم سے جدا ہوتی ہیں تو ان کی کمی ہر جگہ اور ہر لمحہ محسوس ہوتی ہے۔ قتیل شفائی نے بھی شاید ایسے ہی داغ مفارقت دینے والوں کے لئے کہا تھا کہ’’ وہ دل ہی کیا، جو تیری دید کی دعا نہ کرے۔۔ میں تجھ کر بھول کر زندہ رہوں، خدا نہ کرے۔۔ رہے گا ساتھ تیرا پیار، زندگی بن کر۔۔ یہ اور بات، میری زندگی وفا نہ کرے۔۔ یہ ٹھیک ہے ، نہیں مرتا کوئی جدائی میں۔ ۔خدا کسی کو کسی سے مگر جدا نہ کرے‘‘

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔