روٹی کی غلامی

……….محمد شریف شکیب……..

غربت کا خاتمہ اور عوام کا معیار زندگی بہتر بنانا ہر حکومت اپنی اولین ترجیح قرار دیتی رہی۔ لیکن ہردور میں غربت کی شرح مسلسل بڑھتی رہی۔ آج پاکستان میں 42فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے کی سطح پر زندگی گذار رہے ہیں۔ ان کے پاس ایک وقت پیٹ بھرکر کھانے کو کچھ نہیں ہوتا۔ عوام کا معیار زندگی بدلنے کے نام پر ہمارے حکمران مختلف ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے اب تک 90ارب ڈالر کا قرضہ لے چکے ہیں لیکن عوام کی حالت بہتر ہونے کے بجائے مزید بدتر ہوگئی ہے۔ہمارے ارباب اختیار و اقتدار نے عوام کے نام پر آنے والا یہ قرضہ عوام پر خرچ کرنے کے بجائے اپنے کارندوں کے ذریعے ملک سے باہر منتقل کیا۔ اپنے بچوں کے لئے جاگیریں خریدیں ۔پلازے بنائے اور آف شور کمپنیاں قائم کیں۔ کرپشن ختم کرنے اور عوام کی زندگی میں تبدیلی لانے کی علمبردار پاکستان تحریک انصاف نے پانچ سال خیبر پختونخوا میں حکومت کی ۔اب مزید پانچ سال کے لئے برسراقتدار آئی ہے۔ پہلے دور حکومت میں پی ٹی آئی کو مرکز کی طرف سے مخالفت ، محاذآرائی اور وسائل نہ ملنے کا شکوہ رہا۔ اس بار صوبائی حکومت کے پاس عوام کی زندگی بدلنے میں ناکام ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے۔کیونکہ وفاق اور صوبے میں ایک ہی جماعت کی حکومت ہے ۔غربت کے خاتمے کی گونج میں صوبائی حکومت کی خصوصی توجہ کے لئے چند تلخ حقائق اعدادوشمار کی صورت میں پیش خدمت ہیں۔ خیبر پختونخوا میں دو وقت کی روٹی کے لئے بیگار کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ 73 ہزار57تک پہنچ گئی ہے۔ خیبر پختونخوا کا ضلع بونیر بیگار کرنے والوں کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔جہاں سولہ ہزار 323افراد بغیر تنخواہ کے صرف دو وقت کی روٹی کے لئے دن بھر کام کرتے ہیں۔ چودہ ہزار نو سو ستانوے بیگار کرنے والوں کے ساتھ ضلع صوابی دوسرے نمبر پر ہے۔ کوہستان میں چودہ ہزار 173افراد صرف دو وقت کی روٹی کے لئے بیگار کرتے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت پشاور میں صرف روٹی کے لئے کام کرنے والے افراد کی تعدادچودہ ہزار 138ہے۔ سوات میں تیرہ ہزار نو سو، مردان میں گیارہ ہزار نو سو، ڈی آئی خان میں دس ہزار سات سو، چارسدہ میں دس ہزار چار سو، شانگلہ میں آٹھ ہزار تین سو، بٹگرام میں چھ ہزار نو سو، مانسہرہ میں چھ ہزار ایک سو، نوشہرہ میں چھ ہزار اسی افراد بغیر تنخواہ بیگار کرنے پر مجبور ہیں چترال میں 996، کوہاٹ میں 1754اور ٹانک میں صرف روٹی کے لئے بیگار کرنے والوں کی تعداد1275ہے۔ صرف روٹی کے لئے گھروں اور کھیتوں میں کام کرنے والے ان ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد کے ساتھ ان کے بال بچے بھی خوانین، ملکوں اورصاحبوں کے گھر میں مفت کام کرتے ہیں اس طرح بیگار کرنے والوں کی تعداد پانچ چھ لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔ روزانہ بارہ سے اٹھارہ گھنٹے محنت مشقت کے عوض انہیں بچا ہوا کھانا ملتا ہے اور عید سمیت خاص مواقع پرکپڑوں کا ایک ایک جوڑادیا جاتا ہے۔ اس صوبے میں ایسے افراد کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے جنہیں معمولی تنخواہ اوربال بچوں کے لئے سرچھپانے کی جگہ مہیا کرکے ان سے بیگار لیا جاتا ہے۔ اگر یہ بات سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے حوالے سے کی جاتی تو زیادہ اچھنبے کی بات نہیں تھی۔ کیونکہ ان صوبوں میں اب بھی صدیوں پرانا جاگیردارانہ نظام قائم ہے۔ خیبر پختونخوا میں صورتحال ان سے یکسر مختلف ہے۔ تاہم غریب کی حالت ہر صوبے میں ایک جیسی ہے۔غریب، نادار، تنگ دست اوربھوکے انسان کو ہمارا معاشرہ بھی انسان تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ امام بخش ناصح کا قول ہے کہ ’’ سیہ بختی
میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے۔۔ کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا رہتا ہے انساں سے‘‘۔کرپشن کے خاتمے، غربت مٹانے، روزگار کی فراہمی اور میرٹ کی بالادستی کے حکومتی دعوے بیشک بہت خوشنما ہیں ۔اگر ان نعروں کو عمل کا جامہ پہنایاگیا تو لاکھوں افراد کا بھلا ہوگا۔ تاہم صوبائی حکومت کو محض روٹی کے لئے مشقت کرنے والے ان لاکھوں لوگوں پر بھی توجہ دینی چاہئے۔ انہیں روٹی کی غلامی سے آزادی دلائے بغیر فلاحی معاشرے اور مدینہ جیسی ریاست کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ مدینہ کی ریاست وہ تھی جہاں امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے منادی کرادی تھی کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی بھوک سے مرجائے تو خلیفہ وقت اس کی موت کا ذمہ دار تصور کیا جائے گا۔فلاحی اسلامی ریاست میں ارباب اختیار کو روٹی کی غلامی کرنے پر مجبور انسانوں کی حالت زار کی ذمہ داری بھی قبول کرنی ہوگی۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔