دادبیداد ….چین کے طو طو ں کا پیغام 

طویل خا مو شی کو توڑ تے ہوئے عوامی جمہوریہ چین نے چائنا پا کستان اقتصا دی راہداری (CPEC) پر عمل در آمد کے سلسلے میں جاری کا موں کا مختصر جا ئزہ اخبارات کو جا ری کیا ہے جا ئزے میں بتا یا گیا ہے کہ منصوبے کی میعاد 2030ء تک ہے طویل المدتی کا م 2030ء میں مکمل ہو نگے در میانہ مدت کے منصو بے 2025تک پائیہ تکمیل کو پہنچینگے 2013ء سے اب تک 5سالوں میں 11منصو بے مکمل ہوئے 75ہزار پا کستانیوں کو روز گار ملامزید 11منصو بوں پر کا م جا ری ہے ان منصو بوں کی ما لیت 18ارب ڈا لر سے کچھ اوپر ہے اور یہ کل منصوبے کے ایک تہائی کے برا بر ہے منصو بہ مکمل ہونے کے بعد پا کستان توانائی کے ذرائع میں خود کفیل ہو گا 7لا کھ نو جوانوں کو روز گار کے موا قع ملینگے سی پیک پر مذا کرات 2005ء میں شروع ہوئے یہ جنرل مشرف کا وژن تھا 2013میں سی پیک کے مختصر مدتی منصو بوں پر کام کا آغاز ہو ادرمیا نہ مدت کے کا موں کا سروے ہوا اس کے بعد وسط مدتی منصو بوں پر کام شروع کیا گیا طویل المدتی کا موں کی فیز یبلیٹی سٹڈی شروع کی گئی 2005ء سے 2018ء تک 13سا لوں میں چینی حکام کی طرف سے یہ پہلا خبر نا مہ ہے جو پا کستانی عوام کی معلو مات کے لئے جا ری کیا گیا اس میں چین کی قیا دت کا ملفوف اور خفیہ پیغام ہے سمجھنے والے اس پیغام کو سمجھ گئے پیغام یہ ہے کہ ذہنی بلوغت دکھاؤ کریڈٹ لینے ،سیلفی بنا کر پوسٹ کرنے ، ٹو ئیٹر پر لمبی چو ڑی بیان بازی کرنے اور جلسوں میں بلند بانگ دعوے کرنے سے یہ بہتر ہے کہ چُپ چاپ کا م کرو کام ہو گا تو لوگ خود دیکھینگے دنیا بھی دیکھے گی کام سب کو نظر آئے گا کام کی تاریخیں بتائینگی کہ کس نے کس وقت کتنا حصہ ڈالا ؟ کس کا حصہ زیا دہ تھا کس کا حصہ کم تھا ؟ تمہارے چیخنے ، چلانے ، اخبارات اور سو شل میڈیا پر ڈینگیں مار نے اور شیخی بگھار نے سے کچھ نہیں ہو گا اس طرح سستی شہرت حا صل کرنے سے دشمن کو مو قع ملے گا دشمن کام میں رکا وٹ ڈالے گا دہشت گردوں کو بھیجے گا، امن و امان کا مسئلہ پیدا کرے گا اس لئے غالب کا مصرعہ حزر جاں بناؤ”خاموشی ہی نکلے ہے جو بات چاہیے” ہم نے سکول کے ایک سبق میں پڑھا تھا کہ ایک تاجر تجارتی سفر پر چین جارہا تھا گھر سے نکلتے وقت اس نے میاں مٹھو سے کہا چین کے طوطوں کو کسی طرح کا پیغام دینا چاہو تو پہنچا دونگا میاں مٹھو نے کہا ان کو میرا پیغام دیدوکہ”تم آزاد ہو، میں پنجرے میں قید ہوں “تاجر نے چین کے طوطوں کو یہ پیغام پہنچا یا تو ایک طوطا ٹہنی سے نیچے گر کر مر گیا تاجر نے واپس آکر میاں مٹھو کو یہ بات بتائی تو میاں مٹھو بھی پنجرے میں گر کر مر گیا تاجر نے پنجرے کا دروازہ کھولا میاں مٹھو کو باہر پھینک دیا میاں مٹھو اڑ کر ٹہنی پر جاکر بیٹھا تاجر نے کہا یہ کیا ماجرا ہے میاں مٹھو بولا چین نے طوطوں کا پیغام یہی تھا کہ تم پنجرے میں خود کو گراؤ ، مالک پنجرے کا دروازہ کھول کر تمہیں باہر پھینک دے تو اڑ کر آزاد ہو جاؤ”آج میں آزاد ہوں دنیا کے چمن میں “پاکستان کی مثال پنجرے میں قید طوطے کی طرح ہے پاکستان عالمی طاقتوں کے پنجرے میں قید ہے عالمی طاقتوں کی چورُی کھاتا ہے اور عالمی طاقتوں کی زبان بولتا ہے عالمی طاقتوں کا چورن بیچتا ہے پاکستان کے منہ میں اپنی زبان نہیں پاکستان کا اپنا کوئی موقف نہیں اپنا کوئی ایجنڈا نہیں اپنا کوئی پروگرام نہیں عالمی طاقتیں جو کہتی ہیں پاکستان اُس پر عمل کرتا ہے پنجرے میں قید ہے اور یہ پاکستان کی مجبوری ہے پاکستان پروں کو پھڑ پھڑا کر اڑان بھرنے کی کوشش کرتا ہے تو عالمی طاقتیں کہتی ہیں ایسا نہیں ہوگا ہم تمہیں اُڑنے نہیں دینگے اس کشمکش میں عوامی جمہوریہ چین کا کردار بے حد اہم ہے چین کہتا ہے تم اڑ سکتے ہو میں تمہیں اڑانے کے قابل بناؤنگا تم اُڑو گے اور آسماں کی بلندیوں کو چھو سکو گے ہم کہتے ہیں “غلامی در غلامی “نے ہماری استعداد ختم کردی ہے ہماری زندگی چھین لی ہے ہماری صلاحیتوں کو زنگ لگ چکا ہے چین کہتا ہے پنجرے سے باہر آجاؤ میں تمہیں دکھادونگا کہ اُڑنا کس طرح اور کس طریقے سے ہوتا ہے؟دَورِ غلامی میں ہم نے کام کو چھوڑ کر “نام”کا جھگڑا شروع کیا ہے ہم کہتے ہیں پہلے نام ہوجائے تو اچھا ہے چینی کہتے ہیں پہلے کام کی فکر کرو کا م ہو جائے تونام بھی ہوگا چین کا پیغام ذہنی بلوغت کا پیغام ہے سنجیدہ طرز فکر کا پیغام ہے سنجیدہ سفارت کا ری کا پیغام ہے چھچورے پن سے توبہ کرنے کا پیغام ہے اچھا ہوا چین نے طویل خاموشی کو توڑ کر سی پیک کی حقیقت ہم پر آشکار کیااب یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ کسی ایک پُل ،کسی ایک سڑک ، کسی ایک بجلی گھر ، یا کسی ایک منصوبے اور کارخانے کا کریڈٹ لینے کی جگہ خاموشی کے ساتھ چین کی کمپنیوں کو کام کرنے دیں 2030ء میں اس کا پھل سامنے آیا تو صبر کے پھل کی طرح میٹھا ہوگا۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔