میری ڈائری کے اوراق سے —( رحمت علی جعفر دوست فطرت کا امین )

اس نوجوان کا تعلق بونی گول سے ہے یہی کوئی 35 سال کا ہنستا مسکراتا، دپلا پتلا قد کاٹھ کمزور بصارت مگر مظبوط بصیرت کے حامل آدمی۔ کوئی ذیادہ پڑھا لکھا نہیں لیکن اُن کی تعلیمات درسگاہوں میں پڑھائے جانے کے قابل ہیں ۔ اپنی زندگی انسانی فلاح و بہبود کے لئے وقف کر رکھی ہے ۔ طویل عرصے سے ماحول کو صاف رکھنے کے حوالے سے سر سبز شاداب کرہ ارض کی تحریک چلا ئے جا رہا ہے ۔ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا۔ 1999 کی بات ہے جب موصوف اپنے محلے کے بچووں کو لیکر محلے کی صفائی کا کام کرتے تھے ۔ پلاسٹک ( شاپنگ بیگ ) کے استعمال سے پرہیز ، پینے کے صاف پانی کے استعمال کے طریقوں کی آگاہی ، زیادہ سے زیادہ درخت اُگا کر ماحول کو سر سبز بنانے کی تلقین کے علاوہ مساجد اور جماعت خانوں میں جاکر ماحول کو بتر بنانے کی تبلیغ میں دنیا کے بڑے سائندانوں کےمتوازی خدمات انجام دی ہیں ۔ عام لوگ انہیں پاگل سمجھتے ہیں کیوں کہ جو کام وہ کرتے تھے اور کرتے ہیں اُس کا کوئی عوض نہیں ملتا ہے ۔ ایک دن میں نے بھی ازراہ تفنن اُں سے پوچھا” رحمت علی جو کام آپ کرتے ہوئے وہ بڑی حد تک مشقت طلب ہے ایسے کام کا کوئی معاوضہ ملے تب بھی اس پر سوچنا پڑے گا ۔ آپ کو اس سے کیا فائدہ ہے ؟” میری بات پر انہیں حیرت بھی ہوئی اور غصہ بھی آیا ، کہنے لگے ” ہائے لال تو دی ہموش لو دیکو اسپہ خورانتے کیہ گلہ کوسی ” پھر قران کریم کی ایک ایت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے کہا کہ اللہ سورہ النحل میں فرماما ہے : وہی تمھارے فائدے کے لیے آسمان سے پانی برساتا ہے جسے تم پیتے بھی ہو اور اسی سے اُگے ہوئے درختوں کو تم اپنے جانوروں کو چراتے ہو ۔ اسی سے وہ تمھارے لیے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل اُگاتا ہے۔ بے شک ان لوگوں کے لیے تو اس میں بڑی نشانی ہے جو غور و فکر کرتے ہیں۔
دیکھو اللہ نے ہمارے لئے تمام نعمتیں عطا کی ہیں آسمان سے پانی برسانے سے لیکر ہمارے فائدے کےلئے پھلدار درخت اُگانے تک لیکن ہم ہیں کہ بجائے ان نعمتوں پر شکر کرتے ہوئے استعمال کرنے کے ان کے بے جا استعمال اور اصراف کے پیچھے ہاتھ دھو کر لگے ہوئے ہیں ۔ کونسا کام ایسا ہم کرتے ہیں جو انسانوں کو زیب دے ۔ پلاسٹک کا استعمال ، کھا کے گندگی ادھر ہی چھوڑ کے جانا، پرندوں ، جنگلی حیات سے لیکر ابی حیات کا قتل عام اور درختوں کی بے دریغ کٹائی تک ہمارا کونسا عمل انسانی بہبود کےلئےلئے ہے ؟ دیکھو اللہ اوپر سے اتر کر ہمارے لئے درخت تو نہیں بوئے گا اور نہ ماحول کو صاف کرنے کے لئے خود آکر ہمارے کان سے پکڑ کر ہمیں سمجھائے گا ۔ اللہ نے جو فرمایا ہے ” بے شک ان لوگوں کے لیے تو اس میں بڑی نشانی ہے جو غور و فکر کرتے ہیں۔” اسی جملے کے اندر سب کچھ مخفی ہے ۔
میرےسوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جو معاوضہ اس کام کےئے مجھے ملتا ہے وہ معاوضہ دنیا کے کسی اور کام میں کسی کو نہیں ملتا۔ میں جو کام کر رہا ہے اس کا معاوضہ یہ ہے کہ میرے بعد آنے والی تمام نسلیں اس کرہ ارض پر پر سکون زنگی گزاریں گیں ۔
رحمت علی جعفردوست اپنے کام میں مست ہیں ۔ آج تک سینکڑوں سکولوں میں جاکر طلبہ کو ماحولیاتی آلودگی سے اپنے آپ کو بچانے اور کرہ ارض پر رہنے والی ہر زی روح کی حیات کو پچانے کے لئے زیادہ سے زہادہ پودے اگانے کی مہم پر ایک تحریک چلا رہے ہیں ۔ کسی زمانے میں لوگ رحمت علی کو پاگل کہتے تھے لیکن آج کل تمام ممالک کی حکومتیں اسی مسئلے کے حل کے پیچے سر گرداں ہیں ۔ رحمت علی صاحب کی تحریک بڑی معنی خیز ہے ۔ وہ ہر سکول میں پانچ سو پھلدار درخت اُگانے پر زور دیتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ کسی ایک سکول کے احاطے میں پانچ سو پھلدار درخت اُگائے جائیں تو اُن سے حاصل کردہ پھل سے بچوں کی فیس بھی ادا کی جا سکتی ہے اور ہمارا ماحول بھی خوشگوار بن سکتا ہے ۔ کیا واقعتاً ہم اس خیال پر سنجیدگی سے عمل کر سکتے ہیں تاکہ ہم دھرتی ماں کودرپیش مسائل کو دور کرنے میں اپنا بہتر حصہ ڈال سکیں ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔