بندوبست اراضی (Land statement) 

تحریر:عنایت اللہ اسیر…….

چترال کوئی ابن بطوطاء کا دریافت کردہ ٹکڑہ ذمین نہیں ہے چار ہزارسال سے انسانی ذندگی کے چترال میں وجود کے ثبوت ارکائیوء ڈیپارٹمنٹ پشاور یونیورسٹی کے ڈین ڈایریکٹر جنرل اثار قدیمہ کے پی کے سابقہ وائس چانسلر ہزارہ یونیورسٹی اور حال وائس چانسلرعبدالولی خان یونیورسٹی مردان محسن چترال جناب ڈاکٹر احسان صاحب نے مہینوں کی محنت شاقہ سے sch ovation کرکے ثابت کرکے ہزارہ یونیورسٹی کےارکائیوڈیپارٹمنٹ میں محفوظ کیا ہے
ان ہزاروں سالوں میں چترال پرخراسان کاحصہ ہونے کے ناطے ایران کے اتش پرست دو تہذیبون زروندرے ایزم,خوشانیزم کی عملداری رہی جس کے اثرات ابادگھروں میں اگ کو چوبیس گھنٹے بجنے نہ دینے کی صو رت میں اب بھی قابل خواتین نے اب تک رکھا ہوا ہے گھر سے دھواں کا نکلنا ابادی کی علامت سمجھا جاتا ہے ( استانو, یا انگریستان) کی اہمیت پر محترم ظفراللہ پرواز کی کتاب اس کی چترال میں اباد گھروں کی رواج اور دستور روایت پر تفصیل سے پژھنے کے لیے کافی ہے
ان تہذیبی اقدار کا مسکن رہنے کے بعد دنیا کے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے پر چترال کلاش تہذیب کےعملداری میں اکر منظم ریاست کی شکل اختیار کرتا ہے ہزاروں سال کلاش انڈیجنیبس تہذیب وثقافت قبل مسیح کے منظم ریاست رہنے کے بعد چترال چینی اوروسی ترکستان کی عملداری میں اتاہے ریس امراء کے تسلط میں اکر کاشغرے کلان کا حصہ قرار پاتاہے ریسء امراء کلاش قبایل کو دعوت اسلام سے روشناس کراتے کراتے کلاش قوم کو ان تنگ وادیوں تک رمبور,بمبوریت اور بریر تک محدود کرکے رکھدیتے ہیں کلاش قبائل اسلام قبول کرکے کافی اکثریت میں مسلمان ہوکراقلیت کی صورت کلاش ویلیز میں رہنے پر مجبور ہوکر رہ جاتے ہیں
اان ایام میں اس پورے علاقے کا نام کاشغر کوچک پڑہ جاتا ہے جسے بگاڑ کر قشقار اوراس کے بسنے والوں کو قشقاری کہا جانے لگا مگر چترال کے باشندے اس نام کو قبول نہیں کیا پھر کٹور قوم ہرات سے ہجرت کرکے چترال میں مسلمان ءونے کے ناطے ریس امراء سے پناہ لیکر گہکیر کے مقام پر پورے لاولشکر اولیاے کرام اور مذہبی پیشواء بھی ان کے ہمراہ افغانستان سے ہجرت کرکے چترال میں پناہ لیکر اباد ہوے ریس امراء نے کٹور فیمیلی جو مغل قوم سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے ہمراہ ایے ہوے تمام اقوام کو چترال کے مختلف علاقوں دروش چترال ایوں کوشٹ بونی مستوج تورکہو مولکہو لوٹکہ تمام علاقں میں مساجد کی اباد ہادکاری اور دعوت اسلام اور کلاش مذھب سے اسلام قبول کرنے والوں کی تربیت میں لگایا جو اب تک ہر علاقے میں ترویج دین اسلام کا فریضہ پیش امام قاضی اور مذھبی پیشواء کے طور پراب بھی بہ خیر خوبی انجام دیتےارہے ہیں
ریس امراء سے پہلے رشتے اور فعاستکی بنیاد پر چترال کی حکمرانی حاصل کرنے کے پھر ریس امراء نے چترال کی ریاست کٹور حکمران سے واپس حاصل کیا تو محترم شوہ کٹور اول ھندوستان کے اخری مغل باشاہ سر ظفراللہ خان سے مدد لیکر سوات کے بشقار سے کرایے کے جنگ جو بہادر جوانوں کولیکر براستہ چیلینجی لاسپورمستوج پر نہایت ھوشییاری چالاکی سے حملہ اورہوا تاکہ ریس امراء کو چینی ترکستان کوئی امداد نہ مل سکے اس طرح مستوج سے ہوتا ہوا چترال پر حملہ اور ہوا اور ریس امراء کا شکست دیکر چترال پر کٹور ( مغلیہ) نسل کی منظم حکمرانی قائم کردی اور چترال کے باشندوں کی سو فیصد مدد سے چترال پر اپنی شخصی حکومت قائم کردی چترال کے حود گلگت سے چقنسرئی اسدآباد کنڑ نورستان اس وقت کے کافرستان جس میں لال کافر قریش کے جاہل تریں اور سخت ترین کافر بستے تھے ان کو بھی ریاست چترال کی عملداری میں شامل کیا اور لواری ٹاپ سے لیکر بدخشان کے توپ خانے اور بروغل کے چاینا اور تاجکستان کے خوروک اور واخان تک پھیلادیا اور185 تک یہ حدود برقرار رہے 1856 86 میں لوٹ میتارچترال امان الملک کے شیر دایا بھائی بخدور بیگ جسے گورنر وادی کنڑ میکھنی ارندو سے چقانسرای کا گورنر بنایا تھا ان کی غیر حاضری سے فایدہ اٹھاکر خان اف اسمار نے افغان حکمران کی مدد سے چقانسرای جسے شقان سرائی بھی کہا جاتا تھا کیونکہ چترال کے باشندے براستہ نواپاس اور درہ خی ر اپنے شاقا اور گرم کپڑے اس مقام پر رکھ کرسردیوں میں لاہور، دہلی، بمبی ،کراچی محنت مزدوری کے لیے اور دینی علم حاصل کرنے کے لیے جایا کرتے تھےچترال کی عملدارج سے اذاد ھوگیا بریکوٹ تک قبضہ خان اف اسمار کے ہاتھ میں کے عملداری میں انے کے بعد وادی کافرستان پر قبضہ بھی برقرار رکھنا ممکن نہ ھوا اور یہ دونوں علاقے ریاست چترال سے جدا ہوگئے سرامان الملک نے اپنے دودہ بھائی بخدور بیگ اسقال کو جرمانہ کرکے اس کی تمام جایداد بحق سرکار ضبط کیا1885 تک چترال کی ریاست انہی حدود تک محفوظ رہا 1885 کو Seage of Chiitral نغور دوڑی )کے بعد چترال کو دو ریاستوں میں رقسیم کیا گیا برنس سے غذر تک ریاست مستوج جس کی عملداری مہترجو راجہ بہادر خان کو دیدی گئی جوکہ مستوجو میتار کے طور پر 14 مئی 1914 تک کام کرتا رہا 14 مئی 1914 کو علاقہ مستوج دوبارہ چترال ریاست میں شامل کیا گیا اس موقع پرریاست چترال کے حدود خراب کیےگئے
مگر 1969 تک چترال دوانتظامی ضلعوں کی شکل میں پولیٹیکل ایجنسی کے طور دو ڈپٹی کمشنروں اور ایک وزیر اعظم مہترجو دلارام کی عملداری مین پولیٹیکل ایجنٹ کے نگرانی میں رہا 1969 میں چترال مکمل ضلع کی شکل میں پاکستان کا قانونی آئینی حصہ قرار پایااور 1941 میں چاند ستارے ہا جھنڈہ پاکستان بننے کے اس میں شامل ہونے کا چھ سال پہلے ہی شامل ہونے کے سر ناصر الملک کے اعلان کے بعد 1947 میں پاکستان بننے کے ساتھ سر مظفرالملک نے ریاست چترال کو مکمل ن فقہ فیصلے سے پاکستان میں شامل کرنے کا سب سے پہلے اعلان کیا جشن اذادی چترال میں بھی منائی گی چرغان کرکےان تمام وفاووں کا مظاہرہ چترال کے سو فیصد باشندے بھرپور وفاء کے ساتھ نبھاتے ارہے ہیں اور نبھاتے رہیںگے

یہ ہی ہماری ارزو اوراعزاز ہے پاک وطن کے لیے جان دینے کا جذبہ ہر چترال مرد اور خاتون اپنا اعزاز سمجھتا ہے ان وفاوو ں کا صلہ اج لینڈ سیٹیلمنٹ کے ذمہ داران کے تاریخ سے غفلت اورچترال کے تمام دیہات کے باشندوں کا ان کے شاملات قابل ابدغیرآباد شاملات اورمشترکہ مقبوضہ چراگاہوں، جلانے کی جنگلات اورقبرستانوں سے 1975 کے نوٹیفیکیشن کا غلط تاویل کرکے یکسر محروم کرنا چترال کے باشندوں کے ساتھ نہایت ذیادتی اور ظلم کے مترادف ہے چترال کے بڑوں کو لیکراس سلسلے میں مشورے سے ایک راستہ ایسا اختیار کیا جایے جس سےہزاروں سالوں سے چترال کے تمام دیہات کے مقبوضہ مشترکہ ملکیتی مقبوضہ شاملات کا ان ملحقہ دیہات کے باشندوں کی ملکیت کے طور پر رجسٹرد کیا جایے کیونکہ چہترال 14850 مربع کلو میٹر پرپھیلا ہوا ہے جس کا صرف 150 مربع کلو میٹر زیرکاشت رقبہ ہے اور 12500 مربع کلو میٹر قابل آبادی و قابل آباد و قابل تعمیروکاشت علاقہ چراہ گاہوں اورگھاس کے میدانوں اورڈھلوان ہرگاوں سے منسلکہ ٹیلوں ہر مشتمل ہے جنہیں آبادی والے قبرستاں اورآبادی کے لیےاہس میں تقسیم کرتےآیے ہیں اب چترال کی آبادی بھائی بژ گئی ہے لوگوں کو اپنے گھر بنانے کے لیے ان ڈھلوان ٹیلوں کوآباد کرنا وقت کی شدید ضرورت ہوگی ہے لینڈ سیٹیلمنٹ کے مقامی باشندوں کو بے آباد قابل آباد زمینات کا اسٹیٹ پراپرٹی قرار دینا مقامی باشندون اورانتظامیہ کےدرمیاں پریشانی کا سبب ھوگا

دیر اید درست اید

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔