لینڈ سیٹلمنٹ چترال ٹائم لائن :

چترال ایکسپریس(خصوصی رپورٹ)  
سال 2003-2002
چترال میں باقاعدہ طور پر لینڈ سیٹلمنٹ کا آغاز ہوتا ہے۔ ڈسٹرکٹ ریونیو آفیسر کو سیٹلمنٹ آفیسر کی اضافی عہدہ دیاجاتا ہے۔ مردان، بنوں اور صوبے کے دیگر اضلاع سے سیٹلمنٹ اہلکاراں تحصیلداراں، نائب تحصیلداران، گردآوراں اور پٹواریاں ضلع چترال پہنچنا شروع ہوجاتے ہیں۔ نائب قاصداور جریب کشان مقامی بھرتی ہوتے ہیں۔
سال2004:
سیٹلمنٹ اہلکاراں اپنے فیلڈورک کو شروع کرنے سےپہلےعوام سے رابطہ شروع کرتے ہیں۔ اس وقت کے عوامی نمائندگان خصوصاً اس وقت کے منتخب لوکل گورنمنٹ کے کونسلرز وغیرہ بشمول معاشر ے کے معروف اور تعلیم یافتہ لوگوں نے بجائے عوام کو سمجھانے اور سیٹلمنٹ اہلکاروں کیساتھ تعا ون پر ابھارنے کے اُلٹا سیٹلمنٹ اہلکاروں کے خلاف اشتعال دلاتے رہے۔ جلسہ جلوسوں اور مقامی بیٹھکوں میں عوام کے اندر سیٹلمنٹ کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرنے کے علاوہ فیلڈ ورک کے دوران کئی مرتبہ اہلکاراں کیساتھ بدتمیزی کے کئی واقعات رونما ہوتے رہے۔ نتیجتاً بندوبست کا کام چلنے کے قابل نہیں رہتا اور حکومتی اخراجات کے باوجود فیلڈ پرکام رک جاتا ہے۔
سال2005:
ضلع چترال سے پہلی بار پٹوار کورس مکمل کرکے امتحان پاس کرنے کے بعد مقامی نوجوانوں کا بطور پٹواری سرکاری ملازم تقرر ہوجاتا ہے۔ مقامی اہلکاراں اپنے سینئرز کیساتھ فیلڈ کیطرف رجوع کرتے ہیں اور لوگوں سے تعاون کے طلبگار ہوتے ہیں۔ یہاں تعاون سے مراد اپنے زمینات کی درست نشاندہی اور اپنے خاندان کے افراد کے بارے میں درست معلومات دینا مراد ہے۔ اپنے زمینات کی درست نشاندہی کے بجائے سیٹلمنٹ اہلکاراں کی دل شکنی اور ہراساں کر نا اس زمانے میں روز کے معمول ہواکرتے ہیں اور اچھے بھلے لوگ اپنے بہن بھائیوں کے درست کوائف بتانے سے گریزاں ہوتے ہیں۔دور دراز کے کئی کئی مقامات پراہلکاراں بندوبست بھوکے پیاسے کام کرتے رہتے ہیں اور لوگوں کے زمینات کی درست ریکارڈ مرتب کرنے کی اپنی انتھک محنت اور جدوجہد کرتےہیں۔ اپنی راتیں لوگوں کے مویشی خانوں کے چھتوں اور درختوں کے نیچے گزارتے ہیں ۔
سال2006تا2010:
مقامی اہلکاروں کی مدد سے بندوبست کے کام کو مہمیز دیا جاتا ہے۔ عوام نہ چاہتے ہوئے بھی بندوبست کیطرف راغب ہوجاتے ہیں۔ لیکن شروع میں لوگوں کے ذہنوں میں غلط مواد بھروانے کے نتیجے میں درست معنوں میں سیٹلمنٹ اہلکاراں کو مطلوبہ درست معلومات فراہم نہیں کی جاتی ہے۔ایک ایسے ضلع میں جہاں بندوبست کا کام پہلے نہیں ہوچکا ہوتاہے، ایک بہت ہی حساس کام کا شروع کرنا آسان نہیں تھا۔ انسان ہونے کے ناطے کمی بیشیاں بالکل طور پر سرزد ہوچکی ہیں اور یہ بھی مقامی لوگ ہی ہیں جنہوں نے غلط معلومات فراہم کی ہوتی ہیں۔ پٹواری کوئی فرشتہ نہیں ہوتا کہ اسے اپنے گھر اور گاوں سے دور دراز موضع میں مقامی لوگوں کے جائیداد کی بالکل 100فیصد درست معلومات معلوم ہوں۔ ایک پٹواری اپنے ٹیم کے ہمراہ کم از کم تین سال تک ایک موضع میں کام پر موجود رہتا ہے۔ تمام لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ کیا ہورہا ہے اور یہ گاوں سے باہر کے لوگ اس علاقے میں کیا کررہے ہوتے ہیں۔ یہ کس کی غلطی ہے ۔ اپنی کوتاہی، غفلت اور سستی کو تسلیم کرنے کے بجائے اب جبکہ تمام ملبہ سیٹلمنٹ اہلکاروں پر ڈالنا کسی بھی طرح مناسب اور انسانیت کا قرینہ نہیں ہے۔ وہ تمام لیڈران جو شروع میں لوگوں کے بندوبست کے خلاف ورغلاتے رہتے تھے، انہوں نے اپنے ریکارڈ کو بالکل درست بنانے کی انتھک کوشش کی اور سادہ عوام کے ذہنوں میں بندوبست کے خلاف زہرافشانی کرتے رہے۔

وریجون ۔ اپر چترال دسمبر2018
سال 2011تا2018:
بندوبست کے کام کادائرہ چترال کے شہری علاقوں مٰیں ختم ہوکر ضلع کے انتہائی دورافتادہ تریں علاقوں تک پہنچ جاتا ہے۔ شدید تریں موسمی سختیاں، انتہائی نامساعد حالات، ناقابل رسائی مقامات، ٹرانسپورٹ کے مسائل، ملازمت کی غیر یقینی کیفیت اور ان علاقوں میں رہائش کے بنیادی مسائل کے باوجود سیٹلمنٹ اہلکاراں اپنے فرائض منصبی اداکرنے میں مصروف رہتے ہیں جس کے نتیجے میں اج ماشاء اللہ بندوبست کا کام اپنے اخری مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔ اب ریکارڈ تیار ہوچکا ہے جو عنقریب محکمہ ریونیو کے حوالے کیا جائیگا۔ جی ہاں جنگلات، ریور بیڈ وغیرہ سرکار کے نام پر درج ہوچکے ہیں کیونکہ ایسا ہونا چاہئے تھا اور اسی کام میں عوام کا فائدہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتاتو چند لوگ ان پر قابض ہوجاتے اور سادہ عوام ایک بار پھر رُل جاتے۔ پٹواری نے تمام ممکنہ طریقوں سے درست ریکارڈ مرتب کرنے کی بے پناہ سعی کی ہے۔ایک مسلمان ،پاکستانی شہری اور چترالی ہونے کے ناطے لوگوں کے حقوق بچانے اور ان کے مالکانہ حقوق ان کے نام کرنے کی بے مثال کوشش کی گئ ہے اور یہی ہدایت حکام بالا کیطرف سے بھی رہی ہے۔ 1975 کے نوٹیفکیشن ، لینڈ ریکارڈ مینول اور اپنے حکام بالا کے احکامات کی مکمل پاسداری کی گئی ہے جس پر پٹواری شاباشی کا مستحق ہے نہ کہ تنقید اور بے بنیاد الزامات کے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔