صدا بصحرا ….جانبداری کا عذاب

جج کہتا ہے مجھے متنازعہ نہ بناؤ ورنہ کچھ بھی نہیں بچے گا جرنیل کہتا ہے اپنے آپس کے جھگڑوں میں میرا نام مت لو ورنہ ملک کی سلامتی خطرے میں پڑ جائیگی ، جرنلسٹ کہتا ہے سیا سی تنا زعات میں مجھے نہ گھسیٹوورنہ میڈیا پر حرف آئے گا ہم حیران ہیں کہ جیم کا پہاڑہ کیسے متنا زعہ ہو گیا ایک جیم متنا زعہ دوسرا جیم متنا زعہ ، تیسرا جیم متنا زعہ آخر یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ میں بر طانیہ کے اخبارات پڑھتا ہوں ان اخبارات میں چیف جسٹس کا سیا سی بیان کبھی نہیں آتا 20سالوں میں ایک بار بھی نہیں کسی بھی قاری نے نہیں دیکھا ہو گا میں جا پان اور چین کے اخبارات روز کھولتا ہوں ، فرانس اور جرمنی کے اخبارات پڑھتا ہوں آرمی چیف کی تصویر نہیںآتی ان کا سیا سی بیان نہیں آتا سیاسی معا ملا ت پر آرمی کا تر جمان اپنا ردّ عمل اخبارات میں شائع نہیں کر اتا، میں نے امریکہ ، بر طانیہ ، فرانس اورجرمنی کے اخبارات کی بہت ورق گردانی کی خبروں اور تجزیوں کو بہت کھنگا لا مجھے کسی جرنلسٹ کی سیا سی پارٹی نظر نہیں آئی میں نے کسی جرنلسٹ کو اپنے تمام انڈے ایک سیا سی جماعت کی ٹوکری میں ڈالتے نہیں دیکھا مجھے یہ جاننے میں کامیا بی نہیں ملی کہ کونسا جر نلسٹ کس سیا سی پرٹی کی حمایت کر تا ہے یا کونسا اخبار کس سیا سی جما عت کا حا می ہے قطعاً ایسا نظر نہیں آتا اس لئے اُن ملکوں میں چیف جسٹس متنا زعہ نہیں کوئی بھی جج متنا زعہ نہیں کوئی بھی جر نیل متنا زعہ نہیں کوئی بھی جر نلسٹ متنا زعہ نہیں اصول یہ ہے کہ جس کا کا م اُسی کو ساجھے الیکشن کب ہوتے ہیں ؟ کیسے ہوتے ہیں الیکشن میں حصہ لینے وا لی پارٹیاں کونسی ہیں ؟ یہ چیف جسٹس یا دوسرے ججوں کا کام ہی نہیں اس کے لئے الگ ادارہ ہے اگر بد قسمتی سے اس ادارے کا سر براہ بھی حا ضر سر وس یا ریٹائرڈ جج ہو تو الگ بات ہے بہر حا ل الیکشن اُس کا کا م ہے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا یہ منصب نہیں کہ ایک سیا سی لیڈر کو الیکشن لڑنے کی اجا زت دے دوسرے لیڈر کواجا زت نہ دے بلکہ پکڑ کر اُس وقت تک جیل میں ڈالے جب تک اُس کا پسندیدہ اُمیدوار کامیاب نہیں ہو جا تا الیکشن گھڑ دوڑ کی طرح کا کھیل ہے آپ ایک گھوڑے کورسیوں سے باندھہ کر دوسرے کو اکیلے دوڑائینگے تو وہ یقیناًجیت جائے گا اور ہار نے وا لا آپ کو معاف نہیں کرے گا اگر جج کی یہ خوا ہش ہے کہ وہ متنازعہ نہ ہو تو اُس کا فر ض بنتا ہے کہ عملی سیا ست سے دُور رہے کیونکہ سیا ست کے الگ تقا ضے ہیں منصفی کے الگ تقا ضے ہیں دونوں یکجا نہیں ہو سکتے 1958ء تک ہمارے جر نیل متنازعہ نہیں تھے جج 1956ء میں متنا زعہ ہو چکا تھا جر نلسٹ اُس وقت متنا زعہ ہوئے جب فیلڈ مارشل ایوب خان نے نیشنل پریس ٹرسٹ بنا کر اخبارات کو اپنی پارٹی کا تر جمان بنا دیا مخا لفت کرنے وا لوں کا جینا حرام کر دیا اور چا پلوسی کے ساتھ خوشامد ملانے وا لوں کے لئے قومی خزانے کے منہ کھلوادیے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے اندر خفیہ فنڈ کا الگ سیل قا ئم کرکے لفافہ متعارف کرایا صحا فی دوحصوں میں تقسیم ہوئے چُوری کھانے والے صحا فی اور سزا پا نے والے صحا فی یہ دور جرنلزم پر قیا مت بن کر آیا اور اب تک جو قیامت ڈھائی جارہی ہے اُس دور کا تسلسل ہے جر نلسٹ جب ایک سیا سی جما عت کا تر جمان ہو گا تو اُس کی غیر جانبداری متا ثر ہو گی ، ایماندار ی متا ثر ہو گی پیشہ ورانہ صلا حیت متا ثر ہو گی پھر صحا فی ایک پتھرماریں گاتودوسرا پتھر مخا لف کی طرف سے بھی آئیگا پتھر کے جو اب میں پھول تو آنے سے رہے یہی حا ل فوجی افیسر یا جرنیل کا ہے فیلڈ مارشل ایوب خان ، یحییٰ خان اور اور ضیا ء الحق کی باتیں پرانی ہو گئیں اصغر خان کیس اب تک زندہ ہے کنونشن لیگ سے شروع ہو کر بات جو نیجو لیگ تک آگئی درمیان میں عوامی لیگ کا راستہ روک کر ایک جر نیل نے ملک کو دو لخت کیا جنرل مر زا اسلم بیگ ، جنرل اسد درانی ، جنر ل مشرف ، ق لیگ اور جنرل پا شا کے معا ملا ت تا زہ بہ تا زہ نظر آتے ہیں تا زہ خبر یہ ہے کہ جنرل پا شا واپس پاکستان آکر اپنی پارٹی کی حکومت میں نئی ذمہ داریاں سنبھالنے والے ہیں یہ سب کچھ اس بات کی گواہی دینے کے لئے کا فی ہے کہ فو جی افیسر بھی غیر جانبدار نہیں ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس منیر سے پو چھا گیا کہ آپ نے 1956ء میں آئین اور اسمبلی کو بحال کیوں نہیں کیاَ ؟ انہوں نے کہا ایک طرف9جج تھے جن کے ہاتھوں میں قلم تھے دوسری طرف 3لاکھ کا لشکر تھا جو بندوقیں تا نے ہوئے حکم کے انتظار میں تھا میری جگہ آپ ہوتے تو کیا کر تے ؟ صحا فی نے کہا سر کٹوادیتا مگر قلم اور قا نون کی حرمت پر آنچ آنے نہ دیتا ہمارا نصب العین ہے ؂
ہم پرورش لوح وقلم کرتے رہینگے
جو دل پہ گزر تی ہے رقم کر تے رہینگے
ہاں !تلخی دوراں ابھی اور بڑھے گی
ہاں ! اہل ستم مشق ستم کرتے رہینگے
جنرل ضیاء الحق نے ایک دن صحا فیوں ، دانش وروں ،شاعروں اور ادیبوں کی میٹنگ بلائی اور ان کے سامنے ایک سوال رکھ دیا کہ پا کستان کا نمبر ایک مسئلہ کیا ہے ؟ جن لو گوں کو افیسروں نے بات سمجھائی تھی انہوں نے کہا کہ جمہوریت ، سیا ست اور سیا ستدانوں کا اقتدار سب سے بڑا مسئلہ ہے جنرل ضیا ء بہت خوش ہوئے بلو چستان سے آئے ہوئے ایک دانشور نے کہا سب سے بڑ امسئلہ ’’جھوٹ ‘‘ ہے حکمران جھوٹ بولتا ہے ،سپہ سلا ر جھوٹ بولتا ہے ، ریڈیو،ٹیلی وژن اور اخبارات کے ذریعے جھوٹ کی تشہیر ہو تی ہے نئی نسل کو جھوٹ کا سبق دیا جا تا ہے یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے اور مسئلہ نمبر ایک یہی ہے جنرل ضیاء نے گھڑی دیکھی محفل برخاست ہوئی گل خان نصیر اپنی سیٹ سے اُٹھ کر جنرل ضیاء سے ملنے آئے جنرل ضیاء نے کہا اصل بات وہی ہے جوآپ نے کہی آج بھی ہمارا مسئلہ نمبرایک یہی ہے اگرآپ چاہتے ہیں کہ سیاست میں آپ کونہ الجھا یا جا ئے تو براہ کرم اپنا دامن سیا ست سے آلودہ نہ کریں آپ سیا ست میں آئینگے تو آپ کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو گا جو دوسرے سیا ستدانوں کے ساتھ ہو تا ہے آپ کی عزت غیر جانبداری میں ہے اور آپ کی مثال کیمرے کی طرح ہے کیمرہ وہی تصویر لیتا ہے جو سامنے ہو کیمرہ پنسل ورک نہیں کرتا شیڈنہیں دیتا اور رنگوں کا استعمال نہیں کر تا ، فو ٹو شاپ کے ذریعے اپنی مر ضی کی تصویر نہیں بنا تا کیمرہ اپنی مر ضی کی تصویر یں بنا نا شروع کرے تووہ کیمرہ نہیں رہتا آرٹسٹ یا فنکاربن جا تا ہے اگرجج، جرنیل اور جرنلسٹ چاہتے ہیں کہ ان کی طرف انگلی نہ اُٹھے تو وہ اپنی غیر جا نبداری کے حلف کی پاسداری کریں اُن پر کوئی انگلی نہیں اُٹھے گی ۔شاعر نے سو باتوں کی ایک بات کہی ہے ؂
اُن کا جو کام ہے اہل سیا ست جا نیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔